انسانی حقوق کی تنظیموں نے پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے ریپ کے ملزم کو بری کرنے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مستقبل میں لوگ اس قسم کے فیصلوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی قوانین کے مطابق ریپ نا قابل مصالحت جرم ہے۔
خیال رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے رواں ماہ ریپ کے مجرم کو خاندانوں کے درمیان ہونے والے راضی نامے کے باعث بری کر دیا تھا۔
ریپ کا یہ واقعہ 2020 میں خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر میں پیش آیا تھا، جہاں مجرم نے قوتِ گویائی و سماعت سے محروم لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ لڑکی کی والدہ کی درخواست پر پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا تھا جو اُن کا قریبی رشتے دار ہے۔
مجرم نے اقبالِ جرم سے انکار کیا تھا، تاہم ڈی این اے ٹیسٹ میں خاتون کے بچے کا باپ ثابت ہونے پر ماتحت عدالت نے اسے 25 برس قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی جس کے خلاف اس نے ہائی کورٹ سے رُجوع کیا تھا۔
خاتون اور مجرم کے خاندان کے افراد نے ایک جرگے کے بعد دونوں کا نکاح کروانے کا فیصلہ کیا تھا اور اسی بنیاد پر عدالت میں راضی نامے کی درخواست دائر کی جسے منظور کرتے ہوئے مجرم کو رہا کر دیا گیا۔
وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن مہوش محب کاکا خیل کہتی ہیں کہ ملک میں قانون کی موجودگی میں ناقابلِ مصالحت جرم کا فیصلہ جرگوں کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد مجرم تو بری ہو گیا، لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ متاثرہ لڑکی کو تحفظ فراہم کرے گا۔
وہ کہتی ہیں کہ اس شخص کے پاس طلاق کے علاوہ مزید شادیوں کا آپشن بھی موجود ہے۔ اس فیصلے سے ایسی ہ روایت بھی پڑے گی جس میں طاقت ور اور بااثر افراد ریپ کے بعد جرگہ کرا کر نکاح کروائیں اور مجرم کو بری کرا لیں۔
مہوش کاکا خیل کے مطابق پاکستان میں خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیسز ویسے ہی بڑھ رہے ہیں، ایسے میں اس قسم کے فیصلوں سے مزید مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
مجرم کے وکیل امجد علی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عدالت میں مجرم نے اقبال جرم سے انکار کیا تھا۔ تاہم مزید سماعت میں ڈی این اے کے ذریعے یہ ثابت ہوا کہ متاثرہ خاتون کے بچے کا باپ وہی ہے۔اس کے بعد بونیر کی مقامی عدالت نے رواں سال مئی میں مجرم کو 25 سال قید اور پانچ لاکھ جرمانے کی سزا سنائی۔
وکیل امجد علی کے مطابق ریپ کرنے والا شخص اور متاثر خاتون چوں کہ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے خاندان میں لڑائی سے بچنے کے لیے علاقے کے عمائدین نے صلح کی کوششیں تیز کر دیں۔ اس کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ مجرم اور متاثرہ خاتون کا نکاح پڑھوایا جائے۔
دونوں خاندانوں کے درمیان صلح ہونے کے بعد سرٹیفکیٹ عدالت میں پیش کر دیا گیا جس کی منظوری کے بعد 23 دسمبر کو ملزم کی رہائی عمل میں آئی۔
عدالتی فیصلہ کیا تھا؟
بیس دسمبر کو جاری ہونے والے ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق "چوں کہ فریقین کے درمیان سمجھوتہ ہو چکا ہے جس کے تحت مجرم اور متاثرہ خاتون کا نکاح کرا دیا گیا ہے۔ ایسے میں فریقین کے درمیان سمجھوتے کو وسیع تر مفاد میں اپیل کی منظوری دی جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ رد کرتے ہوئے اپیل کنندہ کو سمجھوتے کی بنیاد پر بری کر دیا جاتا ہے۔"
ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ریپ ناقبل مصالحت جرم ہے۔ جس کا تصفیہ کسی مشتبہ سمجھوتے کے ذریعے نہیں ہو سکتا۔
ایچ آر سی پی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرے۔
مہوش کاکا خیل کہتی ہیں کہ ایک تو خاتون کے ساتھ زیادتی ہوئی اور اب اُسے ساری زندگی ایک ریپسٹ کے ساتھ گزارنے پر مجبور کیا گیا۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کیا اس نکاح میں خاتون کی رضامندی بھی شامل ہے یا نہیں؟