افغانستان میں 22 مئی کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات 18 ستمبر تک ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ آزاد الیکشن کمیشن کے ایک ترجمان نے اتوار کو کابل میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان کیا اور اس کی وجوہات مالی وسائل کی کمی اور ملک میں موجود سلامتی سے متعلق خدشات بتائیں۔
اس سے قبل کمیشن کے ایک عہدے دار نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ پارلیمانی انتخابات کے لیے آزاد الیکشن کمیشن کو 12 کروڑ ڈالرز کی رقم درکار ہے جو اِس کے پاس نہیں ہے۔
بین الاقوامی برادری نے اگست میں افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخاب پر 22 کروڑ ڈالرز کی خطیر رقم خرچ کی تھی لیکن پولنگ میں بڑ ے پیمانے پر دھاندلی کی وجہ سے اس جمہوری عمل کے بارے میں اندرون ملک اور بیرونی دنیا میں شدید تنقید کی گئی۔
ان حالات میں دوسری مدت کے لیے صدر حامد کرزئی کے انتخاب کے بارے میں جنم لینے والے شکوک وشبہات کے باعث ملک اس وقت بھی سیاسی غیر یقینی کا شکار ہے۔
مغربی ملکوں کے عہدے دار افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کو شفاف اور منصفانہ انداز میں منعقد کرانے کی ضرورت پر زور دیتے آئے ہیں۔ لیکن بعض ناقدین کا ماننا ہے کہ پچھلے انتخاب میں دھاندلی جیسے جن سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہ شاید اگلے انتخابات تک حل نہ ہو سکیں۔
کابل میں امریکی سفارت خانے کے ایک ترجمان کے بقول افغانستان میں نمایاں انتخابی اصلاحات کے بغیر مغربی ممالک شاید ملک میں ایک دوسرے کے انتخابی عمل کے لیے رقم فراہم نہ کرسکیں۔
دوبارہ منتخب ہونے کے بعد افغان صدر حامد کرزئی نے عالمی برادری کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کی حکومت ملک بدعنوانی کے خاتمے کے لیے بھرپور کوششیں کرے گی۔
افغان آزاد الیکشن کمیشن کے طرف سے پارلیمانی انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب 28 جنوری کو لندن میں افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ایک بڑی عالمی کانفرنس کا انعقاد ہو رہا ہے اور جس میں صدر کرزئی ملک میں سیاسی، اقتصادی اور سلامتی سے متعلق امور کے بارے میں اپنی حکمت عملی سے عالمی دنیا کو آگاہ کریں گے۔