حالیہ دنوں میں بھارتی ایئرلائنز کے طیاروں میں ہنگامہ آرائی اور مسافروں بالخصوص خاتون مسافروں اور عملے (کریو ممبرز) کے ساتھ بدسلوکی کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں جس پر ماہرین نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
نیویارک سے نئی دہلی آنے والے ایئر انڈیا کے ایک طیارے ’اے آئی 102‘ کے بزنس کلاس میں ایک مرد مسافر کے ایک خاتون مسافر پر پیشاب کرنے کا معاملے منظرعام پر آنے کے بعد مسافروں کی جانب سے بدسلوکی کے کئی اور واقعات سامنے لائے جارہے ہیں۔
یہ واقعہ گزشتہ سال 26 نومبر کو پیش آیا تھا۔ مذکورہ خاتون کے شکایت کرنے اور میڈیا میں یہ واقعہ زیرِ بحث آنے کے بعد نامناسب حرکت کرنے والے مسافر کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ ملزم 35 سالہ شنکر مشرا کو نئی دہلی کی پولیس نے جمعے کو بنگلور سے گرفتار کیا ہے۔
نئی دہلی پولیس کی ترجمان سمن نالوا نے اتوار کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملزم ممبئی میں ایک امریکی کمپنی میں ملازم ہے۔ اس واقعے کے میڈیا میں آنے کے بعد وہ چھپتا پھر رہا تھا۔ اسے بنگلور سے گرفتار کرکے دہلی لایا گیا ہے۔ دہلی لانے کے بعد شنکر مشرا کو ایک عدالت میں پیش کیاگیا ہے۔ عدالت نے ملزم کو 14 دن کے لیے جیل بھیج دیا ہے جب کہ پولیس اس معاملے کی مزید تحقیقات کررہی ہے۔
ملزم کے خلاف خاتون کے ساتھ بدسلوکی، حملہ، توہین، عوامی مقام پر بے حیائی اور عوامی مقام پر شراب پینے سمیت کئی دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔ جرم ثابت ہونے پر ملزم شنکر مشرا کو تین سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
ملزم شنکر مشرا ملٹی نیشنل امریکی کمپنی ’ویلز فارگو اینڈ کمپنی‘ کی ممبئی شاخ کے سینئر عہدے دار تھے۔ یہ معاملہ منظرِ عام پر آنے کے بعد کمپنی نے انہیں ملازمت سے برطرف کر دیا ہے۔ کمپنی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ اس کیس کی تحقیقات میں تعاون کرے گی۔
ادھر ایئر انڈیا نے اس معاملے کے منظر عام پر آنے کے بعد 30 دن کے لیے ملزم پر پرواز کے لیے پابندی لگا دی تھی۔ لیکن جب سوشل میڈیا پر شدید احتجاج ہوا اور پابندی کو ناکافی کارروائی قرار دیا گیا تو ایئر لائن نے اتوار کو نوٹس جاری کرکے ایک پائلٹ اور کیبن کریو کے چار ارکان کو ڈیوٹی سے ہٹا دیا۔
جب کہ ’ٹاٹا سنز‘ کے چیئرمین این چندر شیکھرن نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ ایئر انڈیا نے خوش اسلوبی کے ساتھ اس معاملے کو نہیں نمٹایا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعہ سے انہیں اور ان کے رفقائے کار کو ذاتی طور پر تکلیف پہنچی ہے۔ اس معاملے میں فوری طور پر کارروائی کی جانی چاہیے تھی۔ واضح رہے کہ بھارت کے ایک بڑے کاروباری گروپ ’ ٹاٹا سنز‘ نے گزشتہ برس ایئر انڈیا کو خرید لیا تھا۔
شکایت کرنے والی خاتون کا موقف
ستّر سالہ خاتون مسافر نے ٹاٹا گروپ کے چیئرمین کو ایک خط لکھ کر پرواز کے دوران پیش آنے والے اس واقعے کی شکایت کی تھی۔ ان کے مطابق مذکورہ شخص شراب کے نشے میں دھت تھا اور اس کے پیشاب کرنے سے ان کی سیٹ، بیگ اور جوتے سب گیلے ہو گئے تھے۔ انھوں نے کیبن کریو سے شکایت کی لیکن کریو نے کسی ہمدردی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
ان کے مطابق انھیں صرف ایک پائجامہ اور سلیپر دیا گیا اور گیلی سیٹ پر کمبل ڈال کر انھیں بیٹھنے کے لیے مجبور کیا گیا۔ جب انھوں نے نشست تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تو خالی ہونے کے باوجود انہیں دوسری سیٹ نہیں دی گئی۔ خاتون کا کہنا تھاکہ جہاز کے عملے نے اس شخص کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طیارے کی لینڈنگ کے بعد انھیں ملزم کے سامنے بیٹھنے اور سمجھوتہ کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی گئی۔ عملے نے اسے بغیر کسی کارروائی کے جانے کی اجازت دے دی۔
عملے کے خلاف احتجاج
مذکورہ مسافر کی حرکت اور ایئرلائن کی جانب سے اس مبینہ غیر انسانی سلوک کے خلاف شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔ ایرلائنز سے وابستہ افراد بھی اسے غیر مناسب رویہ قرار دے رہے ہیں۔
’فیڈریشن آف انڈین پائلٹس‘ کے سابق صدر کیپٹن ایم آر واڈیا کے مطابق یہ ایک سنگین جرم تھا۔ اس کو فریقین کے درمیان مصالحت سے ختم نہیں کیا جا سکتا تھا۔
انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس سلسلے میں قوانین موجود ہیں۔ ایئرلائن کو چاہیے تھا کہ وہ ان قوانین کے تحت کارروائی کرتی۔ ان کے مطابق طیارے کے عملے کو چاہیے تھا کہ وہ خاتون مسافر کی شکایت پر کارروائی کرکے انھیں مطمئن کرتے اور انھیں متبادل نشست دیتے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ خاتون مسافر کو مطمئن کرنے کے بعدطیارے کے عملے کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ کمانڈر کو اس کی اطلاع دیتے۔ کمانڈر کے پاس جوڈیشل اختیارات ہوتے ہیں۔ انھیں چاہیے تھا کہ وہ سامنے آکر معاملے کو حل کرتے یا پھر لینڈنگ کے بعد اس معاملے کو دیکھتے، خاتون سے معافی مانگتے، ان کی ہر ممکن مدد کرتے اور ان کو مطمئن کرتے۔
ان کے مطابق طیارے کی لینڈنگ کے بعد مقامی پولیس کو اس کی اطلاع دینی چاہیے تھی اور جب تک پولیس نہیں آتی مسافروں کو باہر نکلنے سے روکنا چاہیے تھا۔ ملزم کو پولیس کے حوالے کرنے کے بعد ہی مسافروں کو طیارے سےنکلنے کی اجازت دینی چاہیے تھی۔
یاد رہے کہ اس واقعہ کے دس روز بعد چھ دسمبر کو ایئر انڈیا ہی کی پیرس سے دہلی آنے والی فلائٹ 112 میں اسی قسم کا ایک اور واقعہ پیش آیا۔ ایک مرد مسافر نے شراب پینے کے بعد مبینہ طور پر ایک خاتون مسافر کے کمبل پر پیشاب کردیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق پائلٹ نے لینڈنگ کے بعد اس کی اطلاع اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے ایئر ٹریفک کنٹرول (اے ٹی سی) کو دی تھی جس کے بعد مذکورہ مسافر کو روک لیا گیا تھا۔ لیکن فریقین میں سمجھوتے اور ملزم کی جانب سے تحریری معافی مانگنے کے بعد اسے جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔
اسی دوران گوا سے ممبئی جانے والے ’گو فرسٹ ایئرلائن‘ کے طیارے میں جمعے کو دو روسی مسافروں کو طیارے کے عملے کےساتھ بدسلوکی کی وجہ سے طیارے سے اتار دیا گیا۔
قبل ازیں دسمبر میں ’تھائی ایئرویز‘ کے بینکاک انڈیا طیارے میں پرواز کے دوران مسافروں میں مارپیٹ کاواقعہ پیش آیا تھا۔ جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔ دو مسافروں کے درمیان کسی بات پر پہلے تو تو میں میں ہوئی اور پھر مارپیٹ ہونے لگی۔
دورانِ پرواز بڑھتے ہوئے پُرتشدد واقعات
ماہرین کے مطابق حالیہ برسوں میں طیاروں کے اندر تشدد اور تنازعے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ’فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن‘ (ایف اے اے) کے مطابق 2021 میں امریکی ایئرلائنز کی پروازوں میں ’ایئر ریج‘ یعنی دورانِ پرواز ہونے والے تنازع اور لڑائی جھگڑے کے 5700 واقعات رپورٹ ہوئے۔ لیکن کرونا کی وبا سے قبل ایسے واقعات کی تعداد 100 سے 150 کے درمیان تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بیشتر تنازعات ماسک کے سلسلے میں ہوئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شراب نوشی بھی طیاروں میں مارپیٹ اور تشدد کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اسی لیے بعض ایئر لائنز نے پرواز میں شراب نوشی پر پابندی عائد کر دی ہے۔
کیپٹن ایم آر واڈیا کہتے ہیں کہ آج پوری دنیا میں بے شمار مسائل ہیں۔ ہر شخص کسی نہ کسی مسئلے کے دباؤ میں ہے۔ طیاروں کے اندر بھی تنازعات پیدا ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ہو رہے ہیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان تنازعات کو کیسے حل کیا جاتا ہے۔
بعض دیگر ماہرین کے خیال میں اگر مسافر اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں تو اس قسم کے واقعات نہیں ہوں گے۔ ایئر لائنز سے وابستہ بعض سابق اہل کاروں کے خیال میں مسافروں کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ انھوں نے ٹکٹ خریدا ہے تو وہ طیارے کے مالک ہو گئےہیں۔ اس کے علاوہ اگر طیارے کاعملہ اپنی ذمہ داری سمجھے اور قانون کے مطابق کام کرے تو مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔