پاکستان میں سرگرم کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کارروائیوں میں ایک مرتبہ پھر تیزی آ گئی ہے اور حالیہ کچھ عرصے کے دوران میران شاہ، وانا اور خیبر پختونخوا کے کئی شہری علاقے شدت پسندوں کے مسلسل نشانے پر رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ٹی ٹی پی نے اپنی کارروائیوں کا رُخ اب چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں سے بڑے شہروں کی جانب موڑ لیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کی شہری علاقوں میں کی جانے والی کارروائیوں کو عالمی سطح پر توجہ ملتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اب شہری علاقوں میں اپنی کارروائیاں بڑھا رہے ہیں۔
سنگاپور میں مقیم شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے محققق، عبدالباسط کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی اب اپنی گوریلا جنگ کا دائرہ کار بڑھا رہی ہے جس کے لیے اس نے شہروں میں اپنے تمام سلیپر سیلز کو متحرک کر دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عبدالباسط نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے حال ہی میں اپنے انتظامی ڈھانچے میں تبدیلی لاتے ہوئے اسے شمالی اور جنوبی حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف حصوں کے لیے اپنے نمائندے بھی مقرر کر دیے ہیں۔
ان کے بقول، ٹی ٹی پی کی تنظیم نو افغان طالبان کی ساخت سے کافی حد تک مطابقت رکھتی ہے اور اس کے جنگجو افغان طالبان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شہری علاقوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
عبدالباسط نے کہا کہ افغان طالبان نے ماضی میں سرحدی علاقوں کو بطور پناہ گاہ استعمال کرکے ملک کے مشرقی علاقوں میں قدم جمائے تھےجس کے بعد تنظیم نے شہری علاقوں کو نشانہ بنانا شروع کیا تھا۔ اسی طرح ٹی ٹی پی پاکستان کے سرحدی علاقوں میں قدم جمانے کے بعد اب شہری علاقوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
ان کے خیال میں ٹی ٹی پی کو اسلام آباد میں 'ناکام' حملے سے جو تقویت ملی ہے وہ اسے سابق قبائلی علاقوں میں 10 خود کش حملوں کے نتیجے میں بھی نہیں ملی۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف دسمبر 2022 میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں 69 حملے کیے گئے جن میں شمالی و جنوبی وزیرستان سمیت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ،سوات، ڈیرہ اسماعیل خان، چارسدہ، بنوں، ٹانک، مردان، چمن، ژوب، چترال، نوشہرہ، کوہاٹ اور لکی مروت کے علاقے شامل ہیں۔
دو ہفتے قبل اسلام آباد کے سیکٹر آئی ٹین فور میں تلاشی کے دوران پولیس چیک پوسٹ پر ایک خود کش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیاتھا۔اس واقعے کے بعد دارالحکومت میں پولیس کے ناکوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ نئے سال کے موقع پر مختلف سفارت خانوں اور ہوٹلوں کی جانب سے تھریٹ الرٹ جاری کیے گئے تھے۔
اس صورتِ حال کو مد نظر رکھتے ہوئے گزشتہ ہفتے پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے سدباب کے لیے مؤثر کارروائی کا اعلان کیا تھا۔
عبدالباسط کا خیال ہے کہ اگر شہری علاقوں میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ ہوا تو آنے والے وقتوں میں حکومت کے لیے یہ حملے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس پاکستان کے اندر 367 حملے کیے گئے جس میں چار ماہ جنگ بندی کے بھی شامل ہیں۔
'اسلام آباد میں حملہ کامیاب ہوتا تو زیادہ نقصان ہوتا'
بعض ماہرین کی رائے میں ٹی ٹی پی کے اندر پاکستان کے شہری علاقوں کو تواتر کے ساتھ نشانہ بنائے جانے کے حوالے سے اختلافات موجود ہیں۔
امریکہ کی اسٹین فورڈ یونیورسٹی سے وابستہ جنوبی ایشیائی امور کے ماہر ڈاکٹر اسفندیار میر کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود جانتے ہیں کہ شہروں میں بڑی کارروائیاں افغان طالبان کے لیے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی برادری کی جانب سے بھی مشکلات کا سبب بن سکتی ہیں۔اس لیے ان کی خواہش ہے کہ پہلے دیہی علاقوں میں قدم جمائے جائیں اس کے بعد آہستہ آہستہ شہروں کا رُخ کیا جائے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اسفندیار میر نے اسلام آباد میں ٹی ٹی پی کے حملے کو نیم دلانہ (Half hearted) قرار دیا۔ ان کے بقول اگر یہ حملہ مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جاتا تو بہت زیادہ نقصان کا حامل ہو سکتا تھا۔
ٹی ٹی پی نے حال ہی میں حکمران اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو نشانہ بنانے کا عندیہ دیا تھا، اس پر اسفندیار میر کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کا زیادہ تر ہدف سیکیورٹی فورسز اور ان کی تنصیبات رہی ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنانے سےبڑے پیمانے پر سویلین بھی اس کی زد میں آ سکتے ہیں۔
ان کے خیال میں سیاسی جماعتوں کو دھمکی کا مقصد حکمران اتحاد کو اپنے عزائم سے پیچھے دھکیلنے کی حکمتِ عملی ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ پاکستان میں شدت پسند تنظیموں کے بڑھتے ہوئے حملوں کے پیش نظر فوجی آپریشن کی باتیں زور پکڑ رہی ہیں۔ ایسے میں اس قسم کی دھمکیوں کو ٹی ٹی پی پریشر ٹیکٹکس کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے۔
ٹی ٹی پی کے خلاف ممکنہ فوجی آپریشن پر بات کرتے ہوئے محقق عبدالباسط کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں جب پاکستان کے مالیاتی ذخائر پانچ ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہوں ایسے میں پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
عبدالباسط کے مطابق موسم سرما کے بعد حکومت کی جانب سے ٹی ٹی پی کے ساتھ ایک مرتبہ پھر کسی جنگ بندی کے معاہدے کے لیے مذاکرات کا دور شروع ہوتا ہے تو اس پر انہیں بالکل بھی حیرانی نہیں ہوگی۔ تاہم، ان کے خیال میں شدت پسند گروہوں کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں امن و مان کی مستقل صورتِ حال پھر بھی برقرار نہیں رہ سکتی۔
وزیرِ داخلہ رانا ثناءاللہ نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ اسی صورت میں بات چیت ہو سکتی ہے اگر وہ ہتھیار ڈال کر خود کو آئین اور قانون کے تابع کریں۔
تاہم اسفندیار میر کے خیال میں گزشتہ چند سالوں میں شدت پسند تنظیم نے اپنے آپ کو بہت زیادہ متحرک کر لیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ مزید طول پکڑتے ہوئے پاکستان کے لیے مزید خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔