لاہور ہائی کورٹ نے ریاست مخالف تقریر کے الزام میں گرفتار طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے متحرک عالمگیر وزیر کی درخواست ضمانت مسترد کر دی ہے۔ عالمگیر وزیر پر ریاستی اداروں کے خلاف شر انگیز الفاظ استعمال کرنے کا الزام ہے۔
جمعرات کو لاہور ہائی کورٹ میں عالمگیر وزیر کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔ لاہور ہائی کورٹ کے جج اسد جاوید گورال نے سماعت کی۔
سرکاری وکیل عبدالصمد نے عدالت کو بتایا کہ عالمگیر وزیر کے 'فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ' اور 'وائس میچنگ ٹیسٹ' بھی مثبت آئے ہیں۔
وکیل نے بتایا کہ اداروں کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے کا مطلب پاکستان کے خلاف بات کرنا ہے۔
وکیل صفائی نے دلائل دیے کہ اُن کے موکل بے قصور ہیں۔ پولیس نے حقائق کے برعکس مقدمہ درج کیا۔ عالمگیر وزیر نے بغاوت نہیں کی۔ لہذٰا، اُنہیں جیل میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
معزز جج نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ملزم کی درخواست ضمانت خارج کر دی۔
گزشتہ سال 29 نومبر کو پاکستان بھر میں ہونے والے طلبہ یکجہتی مارچ کے بعد پولیس نے لاہور سے عالمگیر وزیر اور دیگر طلبہ کو حراست میں لیا تھا۔
ان پر ریاست مخالف سرگرمیوں اور تقاریر کے الزامات کے تحت لاہور کے سول لائنز تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ان میں سے بیشتر طلبہ کی ضمانت منظور کر لی گئی تھی۔ لیکن، عالمگیر وزیر کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔
سماعت کے بعد عالمگیر وزیر کے وکیل اسد جمال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ابھی عدالت کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا۔ لہذا، کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ عالمگیر وزیر کی ضمانت کی درخواست کیوں مسترد کی گئی ہے۔
اسد جمال کہتے ہیں کہ درخواست ضمانت مسترد ہونے پر اُنہیں مایوسی ہے کیوں کہ اُن کی درخواست میرٹ کے مطابق تھی۔ عالمگیر کے خلاف سرے سے کوئی کیس ہی نہیں بنتا۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم لاہور کے فارمین کرسچین (ایف سی) کالج کے لیکچرار ڈاکٹر عمار علی جان کہتے ہیں کہ یہ ایک بے بنیاد کیس ہے۔ عالمگیر کو دو ماہ سے جیل میں رکھا ہوا ہے۔ سماعت کی تاریخوں کو بار بار تبدیل کیا جاتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عمار جان نے بتایا کہ اُن پر بھی بغاوت کا مقدمہ ہے۔ اسلام آباد میں موجود اُن کے دیگر ساتھیوں پر بھی غداری کے مقدمات ہیں۔
ڈاکٹر عمار جان کا کہنا تھا کہ طلبہ یکجہتی مارچ میں ہم نے طلبہ کے بنیادی مسائل اُجاگر کرنے کی کوشش کی تھی۔
اُن کے بقول، ہم چاہتے تھے کہ طلبہ یونینز بحال ہونی چاہئیں، تعلیمی بجٹ بڑھنا چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں حراسگی کے واقعات ختم ہونے چاہئیں۔
اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ کیا یہ مطالبات غداری کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان مطالبات کی منظوری سے بھارت، امریکہ یا اسرائیل نہیں بلکہ پاکستان کا ہی نظام تعلیم بہتر ہو گا۔
ماہر قانون اور پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی کہتے ہیں کہ پاکستان میں جو بھی آزادی اظہار کا برملا اظہار کرے گا یا اپنی زبان کھولے گا، تو ریاستی اداروں کے پاس ایک ہی فارمولہ ہے کہ انہیں اُٹھا لیا جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عابد ساقی نے کہا کہ ہمارے ریاستی اداروں پر بھی برطانوی سامراج کی چھاپ ہے اور وہ عوام الناس کو شہری نہیں بلکہ رعایا سمجھتے ہیں۔
عابد ساقی بولے کہ رعایا سے متعلق ریاستی اداروں کی پالیسی یہ ہے کہ کوئی بھی شخص شعور کی بنیاد پر کوئی رائے نہ دے۔ اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ طلبہ نے اپنے حقوق کے لیے ریلی نکالی، اسے ریاست کے خلاف بغاوت کیسے کہا جا سکتا ہے؟
واضح رہے مال روڈ پر 29 نومبر 2019 کو مختلف طلبہ تنظیموں کی جانب سے نکالی گئی ریلی کے شرکا اور منتظمین کے خلاف لاہور کے سول لائنز تھانے کی پولیس نے مقدمہ درج کیا تھا۔
مقدمے میں عمار علی جان، بھٹہ یونین کے عہدیدار فاروق طارق، عالمگیر وزیر، مشعال خان کے والد حاجی اقبال لالہ، محمد شبیر اور کامل خان کو نامزد کیا گیا تھا۔
مقدمے میں 250 سے 300 نامعلوم افراد بھی شامل کیے گئے ہیں جب کہ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ریلی کے شرکا نے حکومتی اور ریاستی اداروں کے خلاف تقاریر کیں۔
عالمگیر وزیر جامعہ پنجاب کے سابق طالب علم ہیں۔ انہیں طلبہ مارچ کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل نمبر 19 سے حراست میں لیا گیا تھا۔ ہاسٹل میں مبینہ طور پر وہ اپنے کزن کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے۔
یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر خالد خان کا یہ موقف سامنے آیا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کو ان کے ہاسٹل میں رہائش پذیر ہونے کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ عالمگیر وزیر پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے رہنما علی وزیر کے بھتیجے ہیں۔