جنوبی وزیرستان سے قومی اسمبلی کے رکن علی وزیر کو تمام مقدمات میں ضمانت اور ایک کیس میں بری کرنے کے فیصلے کے ایک ہفتے سے زائد گزر جانے کے باوجود بھی رہائی نہیں مل سکی ہے۔
علی وزیر کے خلاف مجموعی طور پر 19 مقدمات درج تھے جن میں سے چار مقدمات کراچی جب کہ باقی 15 خیبر پختونخوا کے مختلف تھانوں میں درج تھے۔
ان میں سے کراچی میں قائم تین مقدمات اور خیبر پختونخوا میں قائم چار مقدمات میں رکنِ اسمبلی کی ضمانت منظور ہو چکی ہے جب کہ 11 دیگر مقدمات میں پشاور ہائی کورٹ نے خیبر پختونخوا پولیس کو ان کی گرفتاری سے روک دیا ہے۔
کراچی میں درج بغاوت کے الزامات کے تحت قائم ایک مقدمے میں علی وزیر بری بھی ہو چکے ہیں۔ کراچی میں ان کے خلاف تھانہ شاہ لطیف ٹاؤن، بن قاسم ٹاؤن، منگھو پیر اور سہراب گوٹھ میں مقدمات قائم ہوئے تھے۔ سہراب گوٹھ میں درج مقدمے میں علی وزیر کو عدم ثبوت کی بنا پر انسداد دہشت گردی کی عدالت بری کر چکی ہے۔
خیبر پختونخوا میں ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں اور دیگر علاقوں میں مقدمات درج کیے گئے تھے۔
علی وزیر کے وکیل عبدالقادر خان ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تمام مقدمات میں ایک ہی قسم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں جن میں مختلف دفعات شامل ہیں۔ ان میں بغاوت، پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ عوام کو جنگ پر آمادہ کرنا، ملکی سالمیت کے اداروں یعنی فوج کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور انہیں بدنام کرنے کی کوشش، عوام میں فساد برپا کرنے، ہنگامہ آرائی، جرائم کے ارتکاب کے لیے غیر قانونی طور اجتماع اور دیگر جرائم کی دفعات شامل ہیں۔
عبدالقادر خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ کراچی میں قائم مقدمات میں ضمانت منظور ہونے کے بعد خیبر پختونخوا پولیس نے سندھ حکومت سے ملزم کو تحویل میں دینے کی درخواست کی تھی جس کے بعد کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ایک حکم نامہ کے تحت کسٹڈی کو اس وقت تک کسی اور صوبے منتقل کرنے سے روک دیا تھا جب تک اُس عدالت میں زیرِ سماعت مقدمے کی کارروائی مکمل نہیں ہوجاتی۔
علی وزیر کے وکیل کے بقول یہ ایک غیر قانونی حکم تھا جس کا مقصد علی وزیر کو خیبر پختونخوا منتقلی کے عمل کو تکنیکی بنیادوں پر روکنا تھا۔ ایسا کرنے سے علی وزیر اپنے خاندان اور بالخصوص والدہ سے ملنے بھی محروم رہے ہیں، جو اتنا دور کا سفر نہیں کرسکتیں۔
انہوں نے بتایا کہ عدالت کے اس حکم کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تاہم اب تک یہ اپیل ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہی ہے۔
ادھر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے راکینِ اسمبلی اور سینیٹرز نے اسپیکر پر علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے پر شدید تنقید کی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رکنِ اسمبلی شیخ روحیل اصغر کا کہنا تھا کہ پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے سے پارلیمان کا بے اختیار ہونا واضح ہوتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں امن و امان پر بحث ہو رہی ہے لیکن وہاں سے رکن اسمبلی علی وزیر کو ضمانت ملنے کے باوجود جیل سے رہا کیا گیا اور نہ ہی اسپیکر نے اجلاس میں شرکت کے لیے ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکنوں اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) نے بھی علی وزیر کی عدم رہائی کی مذمت کی ہے اور عدالت سے تمام زیرِ التوا مقدمات میں ضمانت منظور ہونے کے بعد ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سابق شریک چیئرپرسن اور رہنما عظمیٰ نورانی نے الزام عائد کیا کہ علی وزیر کو مسلسل جیل میں رکھنے اور ان کی رہائی میں روڑے اٹکانے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے، جو نہیں چاہتی ہے کہ ایسے شخص کو جیل سے باہر رکھا جائے جو ان کی مداخلت اور پالیسی کو پارلیمان کے اندر اور باہر تنقید کا نشانہ بناتا ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر کی جانب سے ان کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے سے پارلیمان کی وقعت کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ برسر اقتدار اتحادی حکومت میں بعض افراد ایسے ہیں جو گاہے بگاہے حکومت کو اس بارے میں احساس دلاتے رہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ علی وزیر کی گرفتاری سراسر انصاف، قانون اور آئین کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ انہیں گرفتار کرنے کے لیے بھی حکومت کو نو آبادیاتی دور میں بنائے گئے قواعد کے تحت بغاوت کی شقوں کا سہارا لینا پڑا، جس میں سپریم کورٹ انہیں ضمانت دے چکی ہے۔
علی وزیر کو دو سال ایک ماہ قبل دسمبر 2020 میں پشاور سے گرفتار کرکے کراچی پولیس کے حوالے کیا گیا تھا اور وہ اس وقت سے کراچی سینٹرل جیل ہی میں قید ہیں۔
وہ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پالیسیوں اور اس کی دیگر ریاستی امور میں مبینہ مداخلت پر کڑی تنقید کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔
علی وزیر خیبر پخنونخوا میں کچھ عرصے قبل ضم ہونے والے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے آزاد حیثیت سے پہلی بار رکن اسمبلی بنے ہیں۔
وہ احمد زئی وزیر قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یونی ورسٹی سے تعلیم مکمل کی تھی۔
علی وزیر خود کو دائیں بازو کی سیاست پر یقین رکھنے والا سیاست دان قرار دیتے ہیں۔ اپنے سیاسی نظریات اور اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں مبینہ کردار پر کھل کر اظہارِ خیال کرنے پر انہیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں علی وزیر کے والد، بھائیوں، چچا، کزن سمیت ان کے خاندان کے 18 افراد مختلف واقعات میں ہلاک ہوچکے ہیں۔