صومالیہ کے صدر حسن شیخ محمود نے کہا ہے کہ صومالیہ میں سرگرم الشباب کا شدت پسند گروہ ’ایک علاقائی دشمن ہے، جس کا صفایا کیا جانا ضروری ہے‘۔
اُنھوں نے یہ بات ’وائس آف امریکہ‘ کی صومالی سروس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی، جس سے تین روز قبل، الشباب کے مسلح افراد نے دھاوا بول دیا تھا جس حملے میں، جو شمال مشرقی کینیا کی گاریسا یونیورسٹی میں کیا گیا، 148 افراد کا قتل عام کیا گیا۔
صدر نے گاریسا حملے پر ’وحشت اور صدمے‘ کا اظہار کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ ہلاکتوں کے اِن واقعات میں کینیا کی زیادہ تر مسیحی آبادی کو ہدف بنایا جا رہا ہے، اور الشباب کے عزائم ملک کے مسلمان اور عیسائی طبقوں کو بانٹنا ہے۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ یہ حرفت ناکامی سے ہمکنار ہوچکی ہے، کیونکہ کینیا کے عوام کو شدت پسندوں کے اِن ہتھکنڈوں کا علم ہو چکا ہے۔
صومالیہ کے صدر نے کہا کہ کینیا کے لیڈروں کے ساتھ بات چیت کے دوران، اُنھوں نے کینیا کے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ متحد ہو کر الشباب کے شدت پسندوں کا مقابلہ کریں۔ صدر محمود نے کہا ہے کہ یہ گروپ، بقول اُن کے ’ایک ایسا دشمن ہے جسے عزت کا قطعی طور پر کوئی خیال نہیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’وہ صومالیہ کے شہریوں اور اُن کے رہنماؤں کو ہلاک کرتے ہیں‘، جب کہ، اُن کا کہنا تھا کہ اسلام میں کہیں بھی ’غیرمسلمانوں کو ہلاک کرنے‘ کے لیے نہیں کہا گیا۔
اُن سے حالیہ دِنوں کے دوران کینیا کی سرزمین پر دہشت گرد حملوں میں اضافے کے بارے میں پوچھا گیا، اور یہ کہ، آیا پچھلے حملوں سے کینیا نے کوئی سبق سیکھا ہے، جس پر صدر نے کہا کہ الشباب فوج اور سرکاری اداروں کو ہدف نہیں بنا سکتی۔ تاہم، اب وہ صرف اُن اہداف کو چن رہے ہیں جو غیرمحفوظ ہیں، کیونکہ ایسا کرنا اُن کے لیے آسان کام ہے۔ اُنھوں نے کہا اِن سفاکانہ ہتھکنڈوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ پریشانی کے عالم میں مبتلہ ہیں اور اُن کا خاتمہ قریب ہے۔
کینیا کے کچھ سیاسی رہنماؤں نے گذشتہ ہفتے ہونے والے اِس حملے کے بعد، ’دباب کیمپ‘ سے صومالی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا مطالبہ کیا ہے، جن پر کینیا میں عدم سلامتی پھیلانے کا الزام ہے۔
صومالیہ کے صدر نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’پناہ گزیں خیموں اور دہشت گردانہ حرکات میں کوئی آپسی واسطہ نہیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ کوئی ایک پناہ گزیں گروہ کا حصہ ہو سکتا ہے، لیکن صومالی پناہ گزینوں کی اکثریت پُرامن لوگ ہیں، جو الشباب کے شدت پسندوں کے ہتھکنڈوں کو مسترد کرتے ہیں۔
یہ معلوم کرنے پر آیا کینیا کی جانب سے سرحد کے ساتھ باڑ لگانے کا مقصد الشباب کے حملوں سے بچاؤ ہے، صدر نے کہا کہ یہ بات اُنھیں محض میڈیا رپورٹس سے پتا چلی ہے۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ دیوار کھڑی کرنے سے الشباب کے عزائم سے بچا نہیں جا سکتا۔ بقول اُن کے، ’ہم ایک نظرئے سے لڑ رہے ہیں، نہ کہ لڑاکوں سے‘، اس لیے، باڑ کھڑی کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔