اندور ٹیسٹ میں بھارت کی آسٹریلیا کے ہاتھوں نو وکٹوں سے شکست پر جہاں شائقین مایوس دکھائی دے رہے ہیں وہیں مبصرین کو سابق کپتان وراٹ کوہلی کے پرفارمنس پر تشویش ہے۔
میچ میں سوائے آسٹریلوی بلے باز عثمان خواجہ اور میزبان ٹیم کے چتیشور پجارا کےعلاوہ کوئی اور بلے باز نصف سینچری تک نہ بناسکا۔ البتہ وراٹ کوہلی کا دونوں اننگز میں نہ چلنا ان کے ریکارڈ کو متاثر کررہا ہے۔
سیریز کے پہلے میچ میں وراٹ کوہلی 12، دوسرے میں 44 اور تیسرے میں 20 جب کہ اندور ٹیسٹ میں 22 اور 13 رنز بنا سکے۔سابق بھارتی کپتان نے گزشتہ 41 ٹیسٹ اننگز میں ایک مرتبہ بھی 100 کا ہندسہ عبور نہیں کیا جب کہ اس دوران صرف چھ نصف سینچریاں اسکور کی ہیں۔
انہوں نے آخری مرتبہ ٹیسٹ سینچری نومبر 2019 میں بنگلہ دیش کے خلاف اسکور کی تھی جس کے بعد سے شائقین کو ان کی 28ویں ٹیسٹ سینچری کا انتظار ہے۔
گزشتہ 21 اننگز میں وراٹ کوہلی کی صرف ایک نصف سنچری نے ان کے مداحوں کو خاصا مایوس کیا۔
سابق آسٹریلوی ٹیسٹ کرکٹر مارک وا نے میچ کے بعد آسٹریلوی ٹی وی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وراٹ کوہلی جیسے کھلاڑی کا لمبے عرصے تک سینچری اسکور نہ کرنا تشویش ناک ہے۔ وہ پرامید ہیں کہ سابق بھارتی کپتان اگلی سینچری جلدہی اسکور کرکے واپس فارم میں آجائیں گے۔
مارک وا کا مزید کہنا تھا کہ وراٹ کوہلی ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میں اچھے فارم میں ہیں اور گزشتہ تین اننگز میں ان کی بیٹنگ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں مشکلات کا سامنا نہیں ہے۔ صرف معمولی غلطیوں کی وجہ سے وہ اننگز کو طول دینے میں کامیاب نہیں ہوپارہےہیں۔
آسٹریلیا کی جانب سے دو ورلڈ کپ فائنل کھیلنے والے آل راؤنڈر کے خیال میں وراٹ کوہلی کو رنز نہ بنانے کا دباؤ نہیں لینا چاہیے کیوں کہ اس سے ان کی بیٹنگ متاثر ہوتی ہے۔ جب کہ اسپنرز پر ان کے آؤٹ ہونے کی وجہ بھی یہی پریشر ہے جس کے ساتھ وہ وکٹ پر جاتے ہیں۔
کیا سلیکٹرز کو کوہلی کی جگہ نوجوان کھلاڑی کو منتخب کرنا چاہیے؟
سن 2011 میں اپنے ٹیسٹ کریئر کا آغاز کرنے والے وراٹ کوہلی نے بھارت کے لیے اب تک 107 ٹیسٹ میچز کھیلے ہیں جس میں انہوں نے 8230 رنز، 48 عشاریہ ایک دو کی اوسط سے اسکور کیے ہیں۔
وہ اب تک ٹیسٹ کرکٹ میں 28 نصف سینچریاں اور 27 سینچریاں اسکور کرچکے ہیں اور اس وقت کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں میں سب سے زیادہ ٹیسٹ سینچریوں کی فہرست میں اسٹیو اسمتھ کے بعد ان کا دوسرا نمبر ہے۔
نومبر 2019 میں ایڈن گارڈن کے مقام پر 136 رنز کی اننگز کھیلنے کے بعد سے وہ اب تک سینچری بنانے سے قاصر رہے ہیں۔ ان کی پرفارمنس ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں بھی ان کی کارکردگی کو متاثر کررہی تھی۔
گزشتہ برس ستمبر میں انہوں نے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں ایک جب کہ دسمبر اور جنوری کے دوران چار ون ڈے میچوں میں تین سینچریاں اسکور کرکے چھوٹے فارمیٹ میں اچھا کم بیک کیا لیکن ٹیسٹ کرکٹ میں ان کا ریکارڈ مایوس کن ثابت ہو رہا ہے۔
سن2019 ہی میں اپنے ٹیسٹ کریئر کی سب سے بڑی انفرادی اننگز 254 ناٹ آؤٹ کھیلنے والے بلے باز نے اپنی آخری ٹیسٹ سینچری کے بعد سے ایک مرتبہ بھی ایک اننگز میں 80 رنز سے زیادہ اسکور نہیں کیے۔
گزشتہ 40 مہینوں کے دوران ٹیسٹ کرکٹ میں ان کا سب سے بڑا اسکور جنوبی افریقہ کے خلاف کیپ ٹاؤن کے مقام پر 79 تھا جو اس فارمیٹ میں ان کی اب تک کی آخری نصف سینچری بھی ہے۔ تب سے لے کر اب تک وہ 15 اننگز میں مسلسل نصف سینچری بنانے سے قاصر ہیں۔
گزشتہ برس جنوری میں وراٹ کوہلی کے ہم عمر اجنکیا راہانے کو 82 ٹیسٹ میچوں میں نمائندگی کرنے کے بعد ناقص فارم کی وجہ سے ٹیم سے باہر کردیا گیا تھا۔ جب کہ حال ہی میں کے ایل راہول کو بھی اسی وجہ سے باہر کردیا گیا۔
ایک ایسے وقت میں جب ممبئی کی جانب سے 25 سالہ سرفراز خان رانجی ٹرافی میں 122 عشاریہ 75 کی اوسط سے صرف چھ میچوں میں 982 رنز بناکر بھی بھارتی ٹیم میں نہیں، سلیکٹرز کے کوہلی پر اعتماد پر سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا ہے۔
یاد رہے کہ اندور ٹیسٹ میں فتح کے ساتھ ہی آسٹریلیا نے رواں سال ہونے والی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل میں جگہ بنالی ہے۔ دوسری پوزیشن پر فی الحال تو بھارت کی ٹیم موجود ہے لیکن اسے اس نمبر پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے اگلے میچ میں بہتر کھیل پیش کرنا ہوگا۔
بھارت کو ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا مسلسل دوسرا فائنل کھیلنے کے لیے آسٹریلیا کو سیریز تین ایک سے ہرانا ہوگی۔ اگر سیریز کا آخری میچ آسٹریلیانے جیت لیا، یا پھر ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوگیا تو سری لنکا کو موقع مل جائے گا کہ وہ نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں اچھی کارکردگی دکھا کر بھارت کو دوسری پوزیشن سے محروم کردے۔