رسائی کے لنکس

پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیش کش؛’عمران خان صرف فوج سے بات کرنا چاہتے ہیں‘


Pakistan Politics
Pakistan Politics

  • پی ٹی آئی رہنماؤں کے حالیہ بیانات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں پائی جانے والی تلخیاں کم ہو رہی ہیں۔
  • تجزیہ نگار پروفیسر حسن عسکری مطابق پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بات چیت کے یہ بیانات سیاسی ضرورت کے تحت دیے جارہے ہیں۔
  • صحافی عامر الیاس رانا کی رائے ہے کہ عمران خان فوج پر دباؤ ڈال کر مذاکرت کرنا چاہتے ہیں۔

اسلام آباد__پاکستان میں رواں برس انتخابات کے بعد حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے نہ صرف الیکشن میں دھاندلی کے سنگین الزامات عائد کیے تھے بلکہ ایوان میں بھی اس کے ارکان نے جارحانہ انداز اختیار کیا تھا۔ تاہم اب اسی جماعت کی جانب سے حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ سے بات چیت کے اشارے دیے جارہے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کے حالیہ بیانات کے بعد ملک کے سیاسی منظر نامے میں ان دنوں پی ٹی آئی کے اسٹیبلیشمنٹ سے رابطے اور بات چیت زیر بحث ہیں۔

پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے اڈیالہ جیل میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کے لیے وزیرِ اعلیٰ خیبر پختوںخوا علی امین گنڈا پور، قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف عمر ایوب خان اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز پر مشتمل تین رکنی کمیٹی تشکیل دینے کی تصدیق کی ہے۔

عام انتخابات کے بعد انتخابی نتائج پر تنازعات کے باعث حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں میں شدید کشیدگی پائی جاتی تھی۔ تاہم پی ٹی آئی رہنماؤں کے حالیہ بیانات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں پائی جانے والی تلخیاں کم ہو رہی ہیں۔

پی ٹی آئی کی جانب سے سیاسی جماعتوں اور فوج سے مذاکرات کے بیانات ایسے وقت میں دیے جارہے ہیں جب 9 مئی کے واقعات کو ایک سال مکمل ہونے والا ہے اور پی ٹی آئی اس دن جلسہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

یاد رہے کہ نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک میں ہونے والے مظاہروں میں پر تشدد واقعات بھی پیش آئے تھے اور کئی شہروں میں فوجی تنصیبات پر بھی حملے کیے گئے تھے۔

عمران خان اور پی ٹی آئی کے متعدد رہنما ان پرتشدد مظاہروں اور فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچانے کے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ تاہم ان مظاہروں میں ملوث ہونے کے تردید کرتے ہیں۔

پی ٹی آئی کی سب سے بڑی سیاسی حریف اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے بھی حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیش کش کی ہے۔

رواں ہفتے سینیٹ کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔

تاہم مذاکرات کے بیانات کیا عملی شکل اختیار کریں گے؟ اور کیا مستقبل میں پاکستان کے سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان کوئی نتیجہ خیز بات چیت شروع ہوگی یا نہیں؟ اس پر مبصرین کی رائے منقسم ہے۔

’فوج کی ناراضی ختم نہیں ہوئی‘

مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی بجائے اسٹیبلیشمنٹ سے مذاکرات چاہتی ہے تاہم فوج کی جانب سے ایسے اشارے نہیں ملے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی سے بات چیت پر آمادہ ہے۔

تجزیہ نگار پروفیسر حسن عسکری کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بات چیت کے یہ بیانات سیاسی ضرورت کے تحت دیے جارہے ہیں اور تاحال یہ بیانات ہی ہیں، مستقبل میں مذاکرات کے لیے کوئی کوئی فریم ورک طے نہیں ہوا ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی آپسی گفتگو اس وقت تک بے معنی رہے گی جب تک اسے فوج کی تائید حاصل نہیں ہوتی ہے۔ان کے بقول تاحال ایسے کوئی اشارے نہیں ملے ہیں کہ فوج بات چیت چاہتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کے حوالے سے فوج کیا سوچ رہی ہے؟ اس کا ابھی اندازہ نہیں ہے لیکن عمران خان سے اسٹیبلیشمنٹ کی ناراضی اپنی جگہ قائم ہے۔

حسن عسکری نے کہا کہ بات چیت کے حوالے سے ایک اور پہلو یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے درمیان اعتماد کی شدید کمی پائی جاتی ہے اور مذاکرات کے لیے ضروری ہوگا کہ پہلے اعتماد سازی کے اقدامات کیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ اعتماد سازی کے اقدامات حکومت کی طرف سے ہوں گے۔ اس کے لیے مقدمات کے خاتمے اور پی ٹی آئی کو سیاسی جلسوں کی اجازت دینے جیسے اقدامات کرنا ہوں گے۔

’عمران خان صرف فوج سے بات کرنا چاہتے ہیں‘

صحافی عامر الیاس رانا کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کے حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ سے بات چیت کے حوالے سے بیانات میں ابہام پایا جاتا ہے اور ہر رہنما دوسرے رہنما سے مخلتف بات کررہا ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان صرف اور صرف فوج سے ہی مذاکرات چاہتے ہیں اور اسی مقصد کے تحت وہ فوج مخالف بیانات کے زریعے دباؤ بڑھا رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ اپنی مقبولیت اور سخت بیانات کے زریعے اسٹیبلیسمٹ کو مذاکرات پر مجبور کیا جائے اور پھر ان سے سیاسی سودے بازی کی جائے۔

عامر الیاس رانا نے کہا کہ فوج کی جانب سے پی ٹی آئی سے مذاکرات کے معاملے پر تاحال کوئی واضح اشارے سامنے نہیں آئے ہیں اور نہ ہی کسی فرد نہ آج تک یہ کہا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے عمران خان سے بات چیت کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے کہ شہباز شریف کی موجودہ حکومت سے فوج کو کوئی ایسی شکایت نہیں۔ البتہ سیاسی بے یقینی کا ماحول ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے فوج حکومت کی پشت سے ہٹ کر پی ٹی آئی سے مذاکرات نہیں چاہے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ فوج کی جانب سے پی ٹی آئی کو یہی کہا جارہا ہے کہ حکومت سے بات کریں اور جہاں تک مقدمات میں ریلیف کا سوال ہے؟ وہ انہیں عدالتوں ہی سے ملے گا۔

مولانا فضل الرحمٰن اور پی ٹی آئی کا اتحاد؟

دوسری جانب انتخابات کے بعد سے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن فوج اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

رواں ہفتے انہوں نے حکومت کے خلاف ملین مارچ اور مزاحمت کے ذریعے حکومت ہٹانے کا اعلان بھی کیا ہے۔

فروری میں ہونے والے انتخابات کے بعد سے مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت میں آنے والے اپنے سابقہ اتحادیوں، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے بھی دوری اختیار کرلی ہے اور متعدد بار ان جماعتوں کی جانب سے رابطہ کرنے کے باوجود حکومت میں شامل ہونے سے انکار کرچکے ہیں۔

تاہم انتخابات کے بعد مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی سخت سیاسی حریف پی ٹی آئی کے درمیان رابطے ہوئے ہیں جسے ایک قابلِ ذکر سیاسی تبدیلی کے طور بھی دیکھا گیا۔

انتخابات میں مبینہ سنگین دھاندلی سے متعلق مولانا فضل الرحمن اور پی ٹی آئی کا موقف ایک جیسا ہے اور دونوں ہی موجودہ حکومت کے قانونی جواز پر سوال اٹھاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں مل کر حکومت مخالف تحریک چلا سکتے ہیں؟

اس بارے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں جے یو آئی اور پی ٹی آئی میں ابھی فاصلے پائے جاتے ہیں جنہیں دور کرنے کے لیے وقت درکار ہوگا۔

حسن عسکری کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور پی ٹی آئی دونوں سمجھتے ہیں کہ اگر دونوں کے درمیان تعاون ہوجائے تو حکومت و اسٹیبلیشمنٹ پر دباؤ بڑھایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پر دباؤ بڑھانے سے متعلق پی ٹی آئی کے اپنے مفادات ہیں اور مولانا کا اپنا ایجنڈا ہے۔ اس لیے دونوں انتخابات پر موقف یکساں ہونے کے باجود ان میں ابھی فاصلے موجود ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ دونوں جماعتوں کا ایک دوسرے کے سخت حریف ہونے کا ایک ماضی ہے اور عمران خان اور مولانا فضل الرحمن ایک دوسرے کے خلاف سخت بیانات بھی دیتے رہے ہیں۔

حسن عسکری نے کہا کہ اس وقت بھی دونوں جماعتیں صرف حکومت کی مخالفت میں اکھٹی ہورہی ہیں اور دونوں کے پاس کوئی مثبت ایجنڈا نہیں ہے۔

صحافی عامر الیاس رانا نے کہا کہ سیاسی قوتیں ’کچھ لو کچھ دو‘ کی بنیاد پر بات کرتی ہیں اور مولانا فضل الرحمن کو اپنا راستہ بنانا آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج ہی مولانا فضل الرحمن کی جماعت کے خیبر پختونخوا کے گورنر غلام علی وزیر اعلی پنجاب مریم نواز سے ملے ہیں تو یقینا اس ملاقات میں کوئی پیغام رسانی ہوئی ہوگی۔

وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے علاوہ سب سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں اور سیاسی قیادت سے اگر کوئی بات چیت نہیں کرنا چاہ رہا تو وہ صرف عمران خان ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG