ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ نیٹو کی تشویش کے باوجود، ترکی روس کا ’ایس 400میزائل نظام‘ خریدنے پر رضامند ہے۔ یہ متنازع خریداری ایسے وقت ہو رہی ہے جب ترکی روس کے ساتھ چلنے پر آمادہ ہے، جب کہ 2015ء میں ترکی نے شام میں روس کا لڑاکا طیارہ مار گرایا تھا۔
اردوان نے منگل کے روز اپنے پارلیمانی معاونین کو بتایا کہ ’’ہم نے اس معاملے پر (ایس 400 کی خریداری) کے بارے میں قدم اٹھایا ہے۔ معاہدے پر دستخط ہوچکے ہیں‘‘۔
اردوان نے کہا کہ ’’خدا نے چاہا تو ہم دیکھیں گے کہ ایس 400 میزائل ہمارے ملک میں آ چکا ہوگا؛ جس کے بعد، مشترکہ پیداوار کا عمل شروع ہوگا‘‘۔
ترک صدر نے نیٹو کے اپنے ساتھیوں کی تشویش دور کرنے کا موقع نہیں گنوایا۔ ساتھ ہی، اُنھوں نے کہا کہ ’’اس سے تناؤ کیوں پیدا ہوگا؟ ہر ملک کو اپنی سلامتی کے لیے بہتر طریقہٴ کار کی تلاش میں رہنا چاہیئے‘‘۔
داعش سے نبردآزما شام کے کرد گروہوں کو مدد فراہم کرنے پر ترکی مغربی اتحادیوں پر برہم ہے، جنھیں ترکی دہشت گرد قرار دیتا ہے، جب کہ انسانی حقوق کے معاملے پر اُس کے خلاف نکتہ چینی جاری ہے۔
ترکی کے نیٹو کے ساتھیوں نے روسی نظام اور اپنی ٹیکنالوجی کے فرق پر تشویش کا اظہار کیا ہے، اور اس اندیشے کا اظہار کیا ہے کہ ممکن ہے نیٹو نظاموں کے راز چرانے کے لیے روس ایس 400 کا استعمال کرے۔ اس تنازع کے نتیجے میں ترکی کی وفاداری پر اضافی سوال اٹھ سکتے ہیں۔