پاکستان میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا معاملہ ایک بار پھر موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔
ایک طرف پاکستان کی فوج کے ترجمان نے اسے محض قیاس آرائیاں قرار دیا ہے تو دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی واضح کیا ہے کہ یہ معاملہ فی الحال زیرِ غور نہیں۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا معاملہ اس سے قبل 2019 کے آخر میں بھی کئی روز تک موضوع بحث رہا تھا۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے اُن کی ملازمت کی مدت میں تین برس کی توسیع کے سرکای احکامات جاری کیے تو سپریم کورٹ نے اس معاملے پر پہلے قانون سازی کا حکم دیا۔
موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اپنی تین سالہ مدت مکمل کر کے 2019 میں ریٹائر ہونا تھا البتہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت اور وزیرِ اعظم عمران خان نے ان کی مدتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع کا فیصلہ کیا۔ ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع رواں سال نومبر میں ختم ہو رہی ہے البتہ پاکستان میں ایک بار پھر اس معاملے پر بحث شروع ہو گئی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع پر بحث اس معاملے کو سیاسی بنا دے گی جو کہ ایک منظم ادارے کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹرٹیجک اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی سرور نقوی کہتے ہیں کہ آرمی چیف کا تقرر دنیا میں ایک معمول کا عمل ہوتا ہے اور پاکستان میں بھی اسے اسی انداز میں لیا جانا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ میڈیا میں ابھی سے آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے بحث، مذاکروں اور پرچار کا کوئی خاص جواز نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کا یہ کہنا درست ہے کہ ابھی اس پر غور کا وقت نہیں آیا اور اس حوالے سے وزیرِ اعظم اپنی کابینہ سے مشاورت کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کریں گے۔
علی سرور نقوی کے بقول یہ معاملہ اس لیے بھی اہمیت کا حامل نہیں ہے کیوں کہ فوج کی قیادت ایک مستقل عمل کے تحت چل رہی ہوتی ہے اور ایک آدمی کے آنے یا تبدیل ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں بھی آہستہ آہستہ یہی طریقہ رائج ہونا چاہیے کہ آرمی چیف کا تقرر ایک معمول کا عمل ہو جیسے کہ بحریہ اور فضائیہ کے سربراہ کے تقرر پر کوئی بحث نہیں کی جاتی۔
دفاعی امور کے صحافی اور مبصر اعجاز حیدر کہتے ہیں کہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع یا تقرر کے حوالے سے بحث و مباحثہ اس وجہ سے کیا جا رہا ہے کیوں کہ ماضی میں مدتِ ملازمت میں توسیع کی روایت قائم ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ یہ بحث اس وقت ہی ختم ہو سکتی ہے جب آرمی چیف کی مدت میں توسیع کی روایت کو ختم کیا جائے گا۔
ان کے بقول اگر سیاسی قیادت سمجھتی ہے تو وہ مدت کی حد مستقل تین سال سے بڑھا کر چار سال کر دے مگر معیاد پوری ہونے کے بعد نئی تقرری عمل میں آنی چاہیے۔
اعجاز حیدر کہتے ہیں کہ موجودہ اور ماضی کی حکومتوں کی جانب سے توسیع کی قائم کی گئی روایت کے سبب ایک غیر ضروری مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے سیاسی و عسکری قیادت کے مابین تعلقات پر بھی سوال اُٹھتے ہیں۔
پاکستان کی فوج کے ترجمان نے اس معاملے پر کیا کہا؟
آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں افواجِ پاکستان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ تمام قیاس آرائیوں پر مبنی باتیں ہیں اور اس پر بات نہیں کی جانی چاہیے۔
بدھ کو پریس بریفنگ میں انہوں نے کہا کہ ایسی بے بنیاد قیاس آرائیوں پر غور نہ کیا جائے اور نہ ہی ایسی چیزوں کو ہوا دی جائے۔
اس کے ایک روز بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے صحافی خاور گھمن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق ابھی غور نہیں کیا گیا۔
'یہ معاملہ سیاسی رنگ اختیار کر رہا ہے'
اعجاز حیدر سمجھتے ہیں کہ دفاعی ادارے کے سربراہ کے تقرر کے معاملے پر بحث سے یہ معاملہ سیاسی نوعیت کا بن جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح فوج جو کہ ایک منظم ادارہ ہے وہ سیاسی اور دیگر قیاس آرائیوں کی زد میں آ جائے گا جو کہ کسی صورت درست نہیں ہو گا۔
علی سرور نقوی بھی سمجھتے ہیں کہ اس معاملے کو موضوع بحث بنانا کسی مفاد میں نہیں بلکہ اس سے سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان ابہام و شکوک جنم لے سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے کو موضوعِ بحث بنانا کسی کے مفاد میں نہیں بلکہ اس سے سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان ابہام و شکوک جنم لے سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ سال انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ کے تقرر کے عمل کے دوران وزیرِ اعظم ہاؤس اور آرمی چیف کے دفتر کے درمیان پیدا ہونے والی صورتِ حال درست نہیں تھی ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس صورتِ حال نے سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان اختلافات پر بحث کو جنم دیا۔ ان کے بقول اب آرمی چیف کے تقرر کے وقت یہ کسی کے لیے مناسب نہیں ہوگا کہ وہی صورتِ حال دوبارہ پیدا ہو جائے۔
اعجاز حیدر کہتے ہیں کہ جب حکومت میعاد کے قوانین سے صرف نظر کرتی ہے تو اس قسم کی روایت قائم ہو جاتی ہے اور پھر یہ مسئلہ بار بار کھڑا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ سیاسی طور پر اٹھتا رہے گا اور قیاس آرائیاں ہوتی رہیں گی جو کہ ایک افسوس ناک بات ہے۔
ان کے بقول اس عمل سے فوج کا ادارہ متنازع ہو جاتا ہے اور عالمی جریدوں میں اس موضوع پر خبریں لگنے سے بیرونی دنیا میں پاکستان کا تاثر خراب ہوتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سارے عمل میں سیاسی ڈھانچے کی کمزوریاں بھی سامنے آتی ہیں اور اس سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ قواعد و قوانین کی پابندی کی جائے اور اس قسم کی غیر ضروری الجھنوں میں نہ الجھا جائے۔
کیا جنرل باجوہ کو توسیع نہ لینے کا اعلان کردینا چاہیے؟
بحث و مباحثے کے اس ماحول میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کے بیان کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے ابھی نہیں سوچا کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کو باوقار طریقہ اپناتے ہوئے ان قیاس آرائیوں کو ختم کر دینا چاہیے۔
سوشل میڈیا پر اپنے ایک بیان میں مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ برطانیہ کے سابق وزیرِ اعظم جان میجر نے اپنی الوداعی تقریر میں کہا کہ جب پردہ گر جائے تو یہ رخصت ہونے کا وقت ہوتا ہے۔
علی سرور نقوی کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ کو قبل از وقت اعلان نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ یہ فوجی قواعد کے منافی عمل ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ سروس رولز میں ایسا کہیں نہیں لکھا کہ توسیع لینے یا نہ لینے کے بارے پہلے سے اعلان کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم سولین بالادستی کی بات کرتے ہیں تو اس کے سربراہ وزیرِ اعظم ہیں اور آرمی چیف ملک کی قیادت کا ایک جز ہیں تو ان کی اہمیت زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ حزبِ اختلاف پاکستان میں بہت غیر ذمہ دارانہ طریقے سے کام کرتی ہے۔ اس معاملے کو بھی سیاسی رنگ دینا غلط ہے۔
علی سرور نقوی نے کہا کہ آرمی چیف حکومت و حزبِ اختلاف کے درمیان غیر جانب دار ایمپائر نہیں ہیں بلکہ حکومت کا حصہ ہیں تو ظاہر ہے انہیں حکومت کی مدد کرنی ہو گی۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ جمہوریت کے اصولوں کے منافی ہے کہ فوجی سربراہ حکومت کا ساتھ نہ دے۔
اعجاز حیدر بھی سمجھتے ہیں کہ توسیع نہ لینے کے اعلان کے مطالبات سیاسی باتیں ہیں اور ان کا اس معاملے سے براہِ راست واسطہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ ماضی میں ایسی روایات رہی ہیں جس کی وجہ سے ایسے مطالبات سامنے آرہے ہیں اور وہ موضوعِ بحث بھی بنے ہوئے ہیں۔