خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں حالیہ اضافے پر مختلف حلقوں نے تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے میں سرگرم تمام عسکریت پسند گروہوں کے خلاف بلاتفریق اور مؤثر کارروائیوں کے ذریعے ہی ان واقعات کی روک تھام ممکن ہے۔
افغانستان میں گزشتہ سال اگست میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو ا ہے ۔ زیادہ تر حملوں میں افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کے اہل کار نشانہ بنے۔ گزشتہ تین روز کے دوران حملوں میں سیکیورٹی فورسز کے اہل کاروں سمیت 13 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔
جنوبی وزیرستان اور ڈیر ہ اسماعیل خان میں عسکریت پسندوں کے حالیہ حملوں میں فوج کے ایک افسر سمیت سات اہل کار ہلاک اور سات زخمی ہوئے۔فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق عسکریت پسندوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں دو شدت پسند بھی ہلاک ہوئے۔
ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے ادارے ریسکیو 1122 کے مطابق باجوڑ کے علاقے ماموند میں بدھ کی صبح سڑک کنارے نصب بم پھٹنے سے ایک مقامی مذہبی رہنما ہلاک ہوگئے ۔
دوسری جانب پانچ پولیس اہل کار اس وقت ہلاک ہوئے جب پیر کی شام خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسمٰعیل خان کی تحصیل کلاچی میں عسکریت پسندوں نے راکٹ لانچر اور فائرنگ سے پولیس کی پیٹرولنگ پارٹی کو نشانہ بنایا۔
پولیس کے مطابق حملے میں پولیس وین آگ لگنے سے مکمل طورپر تباہ ہو گئی جب کہ حملہ آور رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
ٹی ٹی پی کا ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے دو الگ الگ بیانات میں جنوبی وزیرستان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان اور ملحقہ ضلع ٹانک میں دہشت گردی کے واقعات تواتر سے رپورٹ ہو رہے ہیں۔
ٹانک شہر کے وسط میں واقع فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے کیمپ پر 30 مارچ کو عسکریت پسندوں نے حملہ کرکے نو اہل کاروں کو ہلاک کر دیا تھا ۔ حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ جوابی کارروائی میں تین عسکریت پسند بھی مارے گئے تھے۔
گزشتہ سال اگست میں افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد حکومت نے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات شروع کیے تھے البتہ کسی بڑی پیش رفت کے بغیر یہ مذاکرات بظاہر تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔
شمالی وزیرستان کے قبائلی رہنما ملک خالد خان داوڑ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بعض شدت پسند عناصر ٹی ٹی پی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے حق میں نہیں تھے۔ ان کےبقول یہی عناصر مذاکرات کی ان کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔
ملک خالد خان داوڑ کہتے ہیں کہ سرکاری اداروں کے بعض اہل کاروں کی عسکریت پسندوں کے خلاف روا رکھی جانے والی مبینہ امتیازی پالیسی کی وجہ سے بھی ملک دشمن عناصر کو پرتشدد کارروائیوں کا موقع مل رہا ہے۔
بعض قبائلی عمائدین نے توقع ظاہر کی تھی کہ حکومت اور شدت پسند گروہوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے انہیں تخریبی سرگرمیاں چھوڑ کر مرکزی دھارے میں شامل کرنے کا موقع مل سکتا تھا۔ اس حوالے سے ملک خالد داوڑ کا کہنا ہے کہ شدت پسندی کی حالیہ کارروائیاں مقامی افراد کے لیے باعثِ تشویش ہیں۔ کئی علاقوں میں لوگ شام کے بعد گھر تک محدود ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
سابق سیکریٹری داخلہ سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کو عسکریت پسند عناصر کے خلاف بلا تفریق اور یکساں پالیسی اختیار کرنی ہوگی۔ پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ پر تشدد کے حملوں میں ملوث عناصر مبینہ طور سرحد پار افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
اختر علی شاہ کا کہنا تھاکہ افغان حکام کے تعاون سے ان عناصر کی کارروائیوں کو محدود کیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب افغانستان میں طالبان کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے البتہ وہ پاکستان کو باور کر اچکے ہیں اس معاملے کا حل بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر جنوبی وزیرستان سے جمعیت علما اسلام (ف )کے رکنِ قومی اسمبلی مولانا جمال الدین قریشی کے لیے بھی تشویش ظاہر کرتے ہیں۔
مولانا جمال الدین قریشی نے حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی پر زور دیا ہے کہ مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے امن کی طرف پیش رفت کی جائے۔
جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما نے پاکستان کے نو منتخب وزیرِ اعظم شہاز شریف سے علاقے میں موثر امن قائم کرنے کی درخواست کی ہے۔
انہوں نے پیشکش کی ہے کہ اگر حکومت چاہے تو وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مفاہمت کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
حکومت کا مؤقف
وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کہتے ہیں کہ بعض شدت پسند دھڑے مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ امن قائم ہو او ر دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکے۔ ان کے بقول حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان جاری مذاکرات کی مخالفت کرنے والے یہی عناصر پرتشدد کارروائیو ں میں ملوث ہیں۔
بیرسٹر محمد علی سیف کہتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد پاکستان کی حکومت نے ان کی وساطت سے کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات شروع کیے تھے البتہ بعض دھڑوں نے ان مذاکرات کی مخالفت شرو ع کر دی تھی۔
حکومت کے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پر عزم ہے۔ سیکیورٹی فورسز کی طرف سے چند ہفتوں کے دوران شمالی و جنوبی وزیرستان کے علاوہ پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ، لکی مروت اور ٹانک میں شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائیوں میں 20 سے زائد شدت پسندمارے جا چکے ہیں۔