بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں پیر کو ایک مذہبی جماعت کے مظاہر ے کے قریب ایک خودکش حملے میں 8 افراد ہلاک اور 14 زخمی ہو گئے۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں پولیس اہل کار شامل ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق جماعت اہلسنت و الجماعت کے کارکنوں کا مظاہرہ پریس کلب کو ئٹہ کے سامنے جاری تھا۔ اس دوران ایک مشتبہ شخص وہاں پہنچا جسے وہاں ڈیوٹی پر موجود پولیس اہل کاروں نے آگے جانے سے روکا اور اس کی جامہ تلاشی لینے کی کو شش کی۔ جس پر مشتبہ شخص نے اپنے جسم کے ساتھ باندھے گئے بارودی مواد میں زور دار دھماکہ کر دیا۔
دھماکے کی زد میں آ کر دو پولیس اور ایک لیویز اہل کار سمیت متعدد افراد زخمی ہو گئے اور ریلی کے شرکا میں بھگدڑ مچ گئی۔
جلسہ گاہ کے قریب کھڑی کی گئی گاڑیوں کے باعث امدادی سرگرمیاں کافی تاخیر سے شروع ہو سکیں۔ اس دوران دو پولیس اہل کاروں اور تین شہریوں نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔ دیگر تین شدید زخمی اسپتال میں طبی امداد ملنے کے دوران ہلاک ہو گئے۔
زخمیوں کو سول اسپتال منتقل کیا گیا۔ انتظامیہ کے مطابق دھماکے کی اطلاع ملتے ہی اسپتال میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔
ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ نے میڈیا سے گفتگو کے دوران بتایا کہ خودکش حملہ آور کا ہدف مذہبی جماعت کا مظاہرہ تھا۔ وہ مظاہرے کے اندر جا کر دھماکہ کرنا چاہتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ڈیوٹی پر تعنیات پولیس اہل کاروں نے مشتبہ شخص کو روکا، جس پر اس نے دھماکہ کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ جماعت اہلسنت و الجماعت نے یوم حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ کے یوم وفات کے موقع پر ریلی نکالی تھی۔ پریس کلب پہنچنے پر ریلی کے شرکا مظاہرہ ختم کر کے واپس جانے کی تیاری کر رہے تھے کہ اس دوران مظاہرے سے کچھ فاصلے پر زور دار دھماکہ ہو گیا۔
ڈی آئی جی پویس کا کہنا تھا کہ دھماکے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ پولیس اور ایف سی کے اعلیٰ حکام نے موقع پر پہنچ کر خودکش حملہ آور کا سر اور بچ جانے والے دیگر اعضا اور شواہد جمع کئے ہیں۔
بموں کو ناکارہ بنانے والے سول ڈیفنس حکام نے وی او اے کو بتایا کہ دھماکے میں آٹھ کلو سے زیادہ دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
دھماکے کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ یا تنظیم کی طرف سے قبول نہیں کی گئی ہے۔
رواں سال کے آغاز کے ساتھ ہی کو ئٹہ میں ایک بار پھر دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ یکم جنوری سے 17 فروری تک دو خودکش حملوں اور ایک بم دھماکے میں ایک اعلیٰ پولیس افسر سمیت 28 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔
کوئٹہ دھماکے کے خلاف کل مختلف سیاسی اور تاجر تنظیموں نے شٹرڈاون ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔
اس سے قبل کیے گئے حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان کی طرف سے قبول کی گئی تھی۔
جنوری میں کوئٹہ میں مسجد کے اندر ہونے والے دھماکے میں پولیس کے ایک اعلیٰ اہل کار سمیت ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
پولیس نے بتایا تھا کہ غوث آباد کے علاقے میں مدرسہ دارالعلوم شریعہ میں ڈی ایس پی امان اللہ کو اس وقت نشانہ بنایا گیا تھا جب وہ مسجد میں دیگر لوگوں کے ساتھ مغرب کی نماز ادا کر رہے تھے۔
اس سے صرف دو روز قبل کوئٹہ شہر کے مرکزی علاقے میکانگی روڈ پر ایک بم دھماکے میں دو افراد ہلاک اور 18 زخمی ہو گئے تھے۔ اس دھماکے کی ذمہ داری جماعت الحرار کی طرف سے قبول کی گئی تھی۔