رسائی کے لنکس

’میڈیا مخالف سوشل میڈیا مہم کے پیچھے سیاسی مقاصد ہیں‘


بائیکاٹ نیگیٹو میڈیا ٹرینڈ
بائیکاٹ نیگیٹو میڈیا ٹرینڈ

پاکستانی ٹوئیٹر پر ایک آج سارا دن ’بائی کاٹ نیگیٹو میڈیا‘ یعنی منفی میڈیا کا بائی کاٹ کیا جائے ٹرینڈ کرتا رہا۔ اس ٹرینڈ میں سوشل میڈیا صارفین پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔

یہ ٹرینڈ شروع کرنے میں سوشل بلاگر فرحان ورک آگے آگے ہیں۔

انہوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان کا روائتی میڈیا بائی کاٹ کرنے کے قابل ہے۔ انہوں نے ایک تصویر بھی پوسٹ کی جس میں لکھا تھا کہ پاکستانی میڈیا محض فتنہ ہے اور پیمرا سے یہ مطالبہ کیا کہ ایسے اقدامات کئے جائیں کہ پاکستانی میڈیا قومی مفادات سے ہم آہنگ رپورٹنگ کرے۔

چند دنوں پہلے پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی ایک ٹویٹ میں میڈیا پر تنقید کی تھی کہ میڈیا جرم کی خبروں کو بہت زیادہ وقت دیتا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا تھا کہ اس سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

ایک صارف نے لکھا کہ پاکستانی میڈیا دنیا بھر میں پاکستان کا دفاع کرنے کی بجائے اس کی تذلیل کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے اور پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتا۔

اس پر ندا کرمانی نے ٹویٹ میں لکھا کہ میڈیا کا کام مثبت یا منفی ہونا نہیں ہے بلکہ اس کا کام سچ کو ظاہر کرنا ہے چاہے اس سے فیصلہ کن طاقتیں ناراض ہی کیوں نہ ہو جائیں۔

گل مرجان نام کے صارف نے دو تصاویر شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ کراچی میں کسی کانسرٹ کی تصاویر نہیں ہیں بلکہ پشتون تحفظ تحریک کے کراچی کے دھرنے کی تصاویر ہیں جو پاکستانی میڈیا آپ کو نہیں دکھائے گا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے صحافی اور ریسرچر قرۃ العین زمان نے کہا کہ فرحان ورک کی میڈیا کے خلاف مہم درست نہیں ہے۔ میڈیا کا کام حکومت کا دفاع کرنا نہیں ہے بلکہ ایک صحت مند جمہوریت میں میڈیا کا کام حکومتوں کی پالیسیوں پر کسی دباؤ کے بغیر تنقید کرنا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں میڈیا کے قوانین اتنے جابرانہ نہیں ہیں جتنے فرحان ورک چاہتے ہیں۔

ٹویٹر ٹرینڈز پر بات کرتے ہوئے معروف اینکر اور سوشل میڈیا پر متحرک اجمل جامی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر بہت سے سیاسی گروہ تربیت یافتہ نوجوانوں پر مشتمل اپنے سیل چلاتے ہیں جو ان کے سیاسی ایجنڈے کو فروغ دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ایسے سیل سے کوئی ٹرینڈ شروع کیا جاتا ہے تو ایک چین ری ایکشن ہوتا ہے جس سے اس سیاسی گروہ کے کارکن اس ٹرینڈ کو پارٹی کا موقف سمجھ کر حصہ لیتے ہیں۔

اس #BoycottNegativeMedia کے ٹرینڈ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دیکھنا یہ چاہئے کہ وہ کون سی سیاسی جماعت ہے جو میڈیا سے ناخوش ہے اور یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ میڈیا آج کل ایسا کیا رپورٹ کر رہا ہے کہ وہ سیاسی جماعت میڈیا سے ناخوش ہو۔

اجمل جامی نے کہا کہ یہ کہنا کہ میڈیا ملک کی مثبت امیج کو اجاگر نہیں کرتا، ایک غلط خیال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی پاکستانی طالب علم، کوئی سائنس دان، یا کوئی بھی پاکستانی جب بھی نمایاں کارنامہ سرانجام دیتا ہے، پاکستان کی کرکٹ ٹیم کوئی کارنامہ سرانجام دیتی ہے، کوئی پاکستانی کار خیر کرتا ہے یا پاکستان کی خوبصورت جگہوں کو اجاگر کرنا ہو، یہ سب پاکستانی میڈیا ہی کور کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جرائم کی خبروں کو جگہ دینا منفی رپورٹنگ نہیں ہوتی۔

ان کا خیال تھا کہ ایسے ٹرینڈ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو واقعات ابھی رپورٹ ہو رہے ہیں، ان کے اثر کو کم کیا جائے۔

اجمل جامی نے اس بات کی سختی سے نفی کی کہ پاکستان کا میڈیا ملکی سلامتی کے منفی رپورٹنگ کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا نے کبھی پاکستانی ریاست کی ہندوستان، افغانستان یا ایران سے متعلق پالیسی کی مخالفت نہیں کی۔ بلکہ چین سے متعلق معاملات کو ملکی میڈیا ملک کے مفاد میں سمجھتا ہے اس لئے اس پر کبھی سوال نہیں اٹھاتا۔

’’ہاں اگر سانحہ ساہیوال کو رپورٹ کرنا ملکی مفاد کی خلاف ورزی ہے تو میرا خیال ہے کہ یہ زیادتی ہے اور ملکی مفاد کی غلط تعریف ہے۔‘‘

XS
SM
MD
LG