قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے سرکردہ رہنما اور ممتاز قانون داں، اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی سلامتی اور یمن فوج بھیجنا ’دو الگ الگ معاملے ہیں‘ جنھیں، بقول اُن کے، ’باہم گڈمڈ کرنا درست نہیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ، ’اس حوالے سے، پاکستان کی پالیسی بلکل واضح ہے‘۔ وہ اِن دنوں، پارلیمانی وفد کے ہمراہ واشنگٹن کے دورے پر آئے ہوئے ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام، ’کیفے ڈی سی‘ میں میزبان، فیض رحمٰن سے گفتگو کرتے ہوئے، بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ پارلیمنٹ نے یمن کے معاملے میں غیر جانبدار رہنے کا متفقہ فیصلہ کیا ہے۔
اُن کے الفاظ میں، ’قوم اس حوالے سے مخمصے میں نہیں۔ اب کوئی امکان نہیں کہ پاکستانی فوج یمن میں داخل ہو‘۔
’تاہم، پارلیمنٹ کے اِس فیصلے سے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو ضرور دکھ پہنچا ہوگا، جس کا اظہار دبئی کے جونیئر وزیر نے کیا‘۔
اعتزاز احسن نے واضح کیا کہ ’سعودی عرب یا مقدس شہروں کو خطرہ ہوا تو پاکستانی قوم اپنے جذباتی لگاؤ کے باعث اس جنگ میں کودنے پر مجبور ہوسکتی ہے‘۔
لیکن، اُنھوں نے کہا کہ، ’سعودی عرب کی سلامتی اور یمن میں فوجیں بھیجنے کا مطالبہ، دو الگ الگ معملے ہیں۔‘
اُنھوں نے کہا کہ ’جب پاکستانی فوج کے یمن جنگ میں شرکت کا امکان ہی نہیں تو پھر اس کی کمانڈ کا سوال کیوں اٹھایا جا رہا ہے؟‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کا افغانستان سمیت دیگر ممالک میں فوجیں داخل کرنے کا تلخ تجربہ ہے۔ قوم اس تجربے کو دوہرانے کی متحمل نہیں ہوسکتی‘۔
اِسی پروگرام میں شریک رکن قومی اسمبلی اور خارجہ کمیٹی کے رکن، اویس لغاری نے اس امکان کو مسترد کردیا کہ یمن فوج نہ بھیجنے پر سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے پاکستانیوں کی بے دخلی ہوسکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستانیوں نے ان ممالک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ’ایسا کوئی امکان نہیں کہ ردعمل کے طور پر پاکستانیوں کے خلاف انتقامی کارروائی ہو‘۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان دو برادر ممالک کے درمیان مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرانا چاہتا ہے۔