ترکیہ اور شام میں آنے والے ہولناک زلزلے میں ہزاروں افراد ہلاک جب کہ کئی زخمی ہو گئے ہیں۔ زلزلے کے بعد ایک ڈچ سائنس دان توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں جنہوں نے زلزلے سے چند روز قبل اس کی پیش گوئی کی تھی۔
نیدرلینڈز کے محقق فرینک ہوگربیٹس نے پاکستان اور بھارت میں بھی آئندہ چند روز میں زلزلے کی پیش گوئی کی ہے جس پر دونوں ملکوں میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔
ہوگربیٹس نے ایک ٹوئٹ میں شام اور ترکیہ میں 7.5 شدت کے زلزلے کی پیش گوئی کی تھی اور محض تین دن بعد زلزلے نے تباہی مچا دی۔
مذکورہ محقق نے پاکستان اور بھارت میں سمیت پورے ریجن میں بھی زلزلے کی پیش گوئی کی ہے جس کے بعد دونوں ملکوں میں سوشل میڈیا پر یہ معاملہ موضوعِ بحث ہے۔
پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق تاحال زلزلے کی پیش گوئی کرنے والا کوئی سائنسی طریقہ موجود نہیں ہے۔
ہوگربیٹس ماہرِ ارضیات نہیں ہیں بلکہ وہ سیاروں کی پوزیشنز کا جائزہ لے کر امکانات ظاہر کرتے ہیں کہ کس علاقہ میں ارضیاتی سرگرمی دیکھنے میں آسکتی ہے۔
ہوگربیٹس کی جانب سے تین فروری کو کی گئی ایک ٹوئٹ بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ جلد یا بدیر 7.5 شدت کا ایک زلزلہ اس خطے جنوبی و وسطی ترکیہ، اُردن، شام اور لبنان میں تباہی مچائے گا۔
اُنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ آسمان میں سیاروں کا محلِ وقوع زلزلوں کی وجہ بن سکتا ہے۔
فرینک ہوگربیٹس جس ادارے سولر سسٹم جیومیٹری سروے کے ساتھ وابستہ ہیں وہ باقاعدگی سے سیاروں کی پوزیشنز کا جائزہ لے کر کچھ امکانات ظاہر کرتا ہے کہ کس علاقے میں ارضیاتی سرگرمی دیکھنے میں آ سکتی ہے۔
ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق سولر سسٹم میں سیاروں کے ایک خاص پوزیشن پر آنے کے بعد زلزلے آتے ہیں جن کے بارے میں بتایا جاسکتا ہے۔
کیا زلزلے کی پیش گوئی ممکن ہے؟
پاکستان میں محکمہ موسمیات کے چیف سیسمک آفیسر ڈاکٹر زاہد رفیع کہتے ہیں کہ زلزلے کی پیش گوئی موسم کی طرح ہو سکتی ہے تو یہ بالکل غلط ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ڈچ سائنس دان کی پیش گوئی ستاروں کے علم کی بنیاد پر ہے۔ اب ستاروں کے ذریعے اُنہوں نے زمین پر آنے والے زلزلے کی پیش گوئی کیسے کی، یہ وہی بتا سکتے ہیں۔لیکن ان کی پیش گوئی کے دو، تین دن بعد زلزلہ آ گیا۔
زاہد رفیع کا کہنا تھا کہ ترکیہ کے فالٹ لائن پر ہونے کی وجہ سے ان کا بہت اچھا مانیٹرنگ کا نظام ہے اور سیسمک سینٹر ہے، ہمارا ان کے ساتھ رابطہ رہتا ہے۔ لیکن وہ ایسے کسی زلزلے کی پیش گوئی نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ ہر ملک ریٹرن پیریڈ کا اندازہ لگاتا ہے، زلزلہ وہاں آتا ہے جہاں فالٹ لائن ہوتی ہے، ان فالٹ لائن پر مانیٹرنگ اسٹیشن قائم کیے جاتے ہیں اور ان علاقوں میں آنے والے زلزلوں کی بنیاد پر ایک بڑے زلزلے کے ریٹرن پیریڈ کا اندازہ لگایا جاتا ہے، پوری دنیا میں یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ارضیات سے منسلک ڈاکٹر سلمان زبیر بھی اس بات سے متفق ہیں کہ اب تک زلزلوں کی مکمل پیش گوئی کرنا ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ موسم یا سیلاب کی پیش گوئی ممکن ہے۔ لیکن زلزلے کے لیے اب تک ایسی کوئی مشین نہیں ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکے۔
ڈاکٹر سلمان کہتے ہیں کہ زلزلہ آنے سے کچھ دیر قبل کچھ ایسی چیزیں ظاہر ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ شاید زلزلہ آجائے۔ ان میں سے ایک حشرات الارض کا زمین سے باہر آجانا ہے۔
اُن کے بقول جس علاقے میں زلزلہ آنے کا امکان ہو وہاں غیرمعمولی بادل بھی بن سکتے ہیں کیوں کہ زمین کے اندر پلیٹوں کے ٹکرانے سے حدت پیدا ہوتی ہے اوراس حدت کی وجہ سے تبخیر کا عمل تیز ہوتا ہے اور فضا میں غیرمعمولی بادل بنتے ہیں۔
لیکن یہ سب عمل کچھ دیر پہلے کا ہوتا ہے۔ ایسا عمل چین میں بھی دیکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اب تک کوئی ایسی مشین ایجاد نہیں ہوئی جو تین یا چار دن پہلے کسی زلزلے کی پیش گوئی کر دے۔
'پاکستان زلزلے کے حوالے سے ہائی رسک ملک ہے'
زاہد رفیع کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مکران کوسٹ کا علاقہ رسک کا علاقہ ہے، اب سے کچھ عرصہ قبل پسنی میں زلزلہ آیا، کوئٹہ، ہرنائی، سبی آوران، چترال ، کاغان، بھارتی کشمیر اور دیگر علاقے ہائی رسک ایریاز ہیں ، ان میں زلزلہ آسکتا ہے لیکن کب آئے گا یہ نہیں بتایا جاسکتا۔
ڈاکٹر سلمان نے کہا کہ پاکستان ایک ایسے ریجن میں ہے، جہاں یوریشین پلیٹس اور ایرانین پلیٹس مل رہی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان ہمیشہ سے ہائی رسک ملک ہے۔ پاکستان میں ہمالیہ کی پہاڑیاں بنی ہی پلیٹس کے آپس میں ٹکرانے کی وجہ سے ہیں جس کی وجہ سے وہ ایک خاص بلندی تک چلی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ زمین کی پلیٹس میں سے ایک کا دوسری پلیٹ پر پریشر جب بڑھتا ہے تو اس پریشر کو ریلیز کرنے کے نتیجے میں زلزلہ پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں کہنا کہ یہاں زلزلہ آسکتا ہے تو یہ کوئی ناممکن بات نہیں، ایسا کسی بھی وقت ممکن ہے۔
پاکستان کے ہائی رسک علاقوں کے بارے میں ڈاکٹر سلمان زبیر نے کہا کہ پاکستان کے شمالی اور مغربی علاقے سب سے زیادہ رسک پر ہیں۔ ہمالیہ، قراقرم کی پہاڑیاں پلیٹس کے ٹکرانے کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں، ان علاقوں میں رسک زیادہ ہے اور جنوبی علاقوں میں یہ رسک کم ہوتا جاتا ہے۔ پنجاب اور سندھ کے پلین ایریاز میں بھی زلزلہ آسکتا ہے لیکن یہاں رسک کم ہے۔
پاکستان میں مانیٹرنگ کہاں کہاں ہو رہی ہے؟
زاہد رفیع کہتے ہیں کہ اس وقت پورے پاکستان میں 30 مانیٹرنگ اسٹیشن موجود ہیں، یہ گلگت بلتستان سے شروع ہوتے ہیں اور اس کے بعد کوہستان، چترال، تربیلا، اسلام آباد، کلر کہار، جہلم اور دیگر علاقوں سے ہوتے ہوئے سمندر تک پاکستان کے مانیٹرنگ اسٹیشن موجود ہیں۔
اُن کے بقول پاکستان کے شمال مغربی ، مغربی اور بلوچستان کے علاقے زلزلہ کے حوالے سے رسک والے ایریا شمار کیے جاتے ہیں اور یہاں ہر وقت مانیٹرنگ کی جاتی ہے لیکن ان علاقوں میں کسی بھی زلزلے کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔
کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر سلمان نے کہا کہ مانیٹرنگ مشینوں کی ریڈنگ 24 گھنٹے حاصل کی جاتی ہے لیکن وہ صرف نکلنے والی ویوز کی مانیٹرنگ کرتی ہے، آئندہ کا نہیں بتاسکتی اور جہاں تک ریٹرن پیریڈ کا تعلق ہے تو اس بارے میں مختلف رائے سامنے آتی ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ اس کا دورانیہ 10سے 15 سال تک ہوسکتا ہے۔
پاکستان میں 2005 میں آنے والے تباہ کن زلزلہ میں 80 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے اور ملک کے شمالی علاقوں میں بہت بڑی تباہی دیکھنے میں آئی تھی۔
زلزلے کی پیش گوئی کرنے والے ایک طرف لیکن بہت سے سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ زلزلہ کی پیش گوئی کے بجائے زلزلہ سے محفوظ رکھنے والی عمارتوں پر توجہ دینی چاہیے تاکہ نقصان سے بچا جا سکے۔