رسائی کے لنکس

شرحِ سود میں اضافے سے کون متاثر ہوگا؟


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

گزشتہ برس اپنی تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کرنے والا پاکستان اب معاشی گرداب میں ہے۔روپے کی قدر میں ایک سال میں تقریبا 40 فی صد گراوٹ کے بعد ملک میں مہنگائی 50 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور مرکزی بینک نے تاریخی اضافہ کرکے شرحِ سود 20 فی صد کردی ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنے فیصلے کے بارے میں کہا ہے کہ معاشی استحکام کے لیے مالیاتی استحکام ناگزیر ہے اور اسی لیے زری پالیسی مزید سخت کی گئی ہے۔ لیکن کئی معاشی ماہرین کے بقول اس اقدام سے ملک میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں زیادہ مدد نہیں ملے گی۔

معاشی ماہرین کی رائے میں عالمی معاشی حالات کی خرابی کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر پائی جانے والی غیر یقینی سیاسی صورتِ حال اور حکومت کی معاشی فیصلہ سازی میں تاخیر مشکلات میں اضافے کا باعث ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک جانب میکرو اکنامک اشاریے خراب معاشی صورتِ حال کی نشان دہی کررہے ہیں وہیں گورننس کے مسائل کے باعث مہنگائی کی لہر مزیدشدید ہوگئی ہے جس سے عام آدمی بری طرح متاثر ہورہا ہے۔

پاکستان میں جہاں مہنگائی کی اوسط شرح رواں سال 28 فی صد کے لگ بھگ ہے وہیں خطے کے دیگر ممالک میں اوسطاً یہ شرح 14 فی صد کی ہے۔ یعنی خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں دگنی مہنگائی ہے۔

شرحِ سود میں اضافہ مددگار ہوگا؟

معاشی ماہر خرم شہزاد کا کہنا ہےاگرچہ شرح سود میں اضافہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتا ہے، خاص طور پر جب بات کرنسی کی فراوانی اور بنیادی افراط زر کی ہو، تو شرح سود بڑھانے سے اس میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ لیکن مہنگائی میں اضافے کے حالیہ رجحان کا تعلق صرف افراط زر یعنی کرنسی کی فراوانی سے نہیں۔

انہوں نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے خیال میں پاکستان میں حالیہ مہنگائی کی کم از کم دو بنیادی وجوہ دیگر ممالک سے مختلف ہیں۔ جن میں سے ایک گزشتہ سال آنے والا تباہ کُن سیلاب ہے اور دوسری وجہ حکومت کی درآمدات پر پابندی ہے۔

ان کے مطابق سیلاب کے باعث جہاں مقامی مارکیٹ میں غذائی اشیا کی فراہمی متاثر ہوئی ہے وہیں درآمدات پر پابندیوں کی وجہ سے بھی غذائی اور دیگر اشیاء کی منڈی میں سپلائی متاثر ہوئی ہے۔ایسے میں ملک میں گندم، چاول، چکن، انڈے، دودھ، پیاز اور چائے جیسی بنیادی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں 29 سے 469 فی صد کے درمیان اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی کی شرح میں ہونے والے مجموعی اضافے میں ان اشیا کا حصہ 16 فی صد بنتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ملک میں سیلاب کی وجہ سے گندم، چاول اور دودھ کی پیداوار متاثر ہوئی جس کی وجہ سے منڈی میں سپلائی میں کمی سے ان اشیاء کی قیمتیں زیادہ ہوگئیں۔ دوسری جانب چکن، انڈے، پیاز اور چائے کی دست یابی درآمدی پابندیوں، کنٹینر کی ریلیز میں تاخیر اور اس سے ملتی جلتی دیگر وجوہ کی بنا پر متاثر ہوئی اور ان اشیاء کی قیمتوں میں بھی شدید اضافہ ہوا۔

خیال رہے کہ حکومت کے پاس غیر ملکی زرِمبادلہ کے کم ذخائر کی وجہ سے گزشتہ مہینوں میں ہزاروں کینٹینرز بندرگاہ پر موجود ہیں جنہیں کلیئر کرنے کے لیے رقم دستیاب نہیں تھی۔

"شرح سود بڑھانے سے مہنگائی کم نہیں ہوگی"

خرم شہزاد نے بتایا کہ یہ اشیاء روزانہ کے استعمال کی ہیں اور شرح سود زیادہ ہونے سے ان کی کھپت متاثر ہونے یا دوسرے الفاظ میں ان کی قیمتیں کم ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لیکن دوسری جانب بلند شرح سود سے ہماری معیشت کے صرف دستاویزی شعبے ہی متاثر ہوں گے جب کہ غیر دستاویزی یعنی گرے اکنامی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔یہ ہماری کُل معیشت کا 40 فی صد ہے لیکن ٹیکس نیٹ میں نہ ہونے سے پالیسی فیصلوں کا اس پر اثر نہیں پڑے گا

ان کے خیال میں مہنگائی کم کرنے کے لیے بنیادی ضروری اشیاء کی سپلائی کی رکاوٹوں کو دور کرنے پر توجہ مرکوز کرنا کہیں بہتر ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ شرح سود بڑھانے سے جو ایک حد تک فرق پڑنا تھا وہ پڑ چکا۔ اسے حد سے زیادہ بڑھانے سے اب کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وقت آگیا ہے کہ طرز حکمرانی یعنی گورننس کو بہتر کیا جائے اور اسٹیٹ بینک کی بھی مدد کی جائے جس کی سخت معاشی پالیسیاں معیشت پر گراں گزر رہی ہیں۔

کون متاثر ہوگا؟

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شرحِ سود میں اضافے سے ملک میں کاروباری اور صنعتی پہیے کو چلانے میں مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ عام آدمی گھر بنانے، گاڑی خریدنے یا چھوٹے کسانوں کے لیے بینک سے کم و بیش 25 فی صد شرح سود پر قرض لینا ناممکن ہوگیا ہے۔

تاجر اور صنعت کار جو اپنے کاروبار کو وسعت دینے یا چلانے کے لیے بینکوں سے قرضہ لیتے ہیں وہ بھی انتہائی مہنگے داموں قرض لینے سے کترائیں گے۔ اس سے صنعتیں متاثر ہوں گی جس کے نتیجے میں بے روزگاری بڑھے گی اور پیدوارا کم ہوجائے گی۔

کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر طارق یوسف کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے پالیسی ریٹ میں 300 پوائنٹس اضافے کا اعلان قطعی طور پر ناقابل قبول ہے۔ اس اقدام سے قرضے لینے کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں کاروبار 25 فی صد منافع کمانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں لہٰذا اتنی مہنگی شرح پر قرضہ لینے کے لیے کون جائے گا؟ یہ اقدام صنعت کاری کی حوصلہ شکنی کرے گا جبکہ افراطِ زر میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ معیشت کے لیے سنگین مسائل پیدا کرے گا۔

ماہرین معیشت کے مطابق شرحِ سود بڑھانے سے حکومت کے قرضوں کا بوجھ بڑھے گا جو مہنگے داموں بینکوں سے قرض لینے پر مجبور ہوگی۔ اس سے فائدہ صرف بینکوں کو ہوگا جو حکومت کے اخراجات چلانے کے لیے بلند شرح پر قرض فراہم کرتے ہیں۔

کیا موجودہ معاشی صورتحال اچانک پیدا ہوئی؟

ایک اور معاشی تجزیہ کار محمد سہیل کا خیال ہے کہ حکومت کی جانب سے پالیسی ایکشن سست روی کا شکار رہے۔ جب کہ گزشتہ سات آٹھ سال میں لیے گئے قرضوں کے انبار نے خرابی پیدا کی اور اب عالمی حالات کی وجہ سے ملک کی معاشی صورتِ حال مزید دگرگوں ہوچکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف نہیں ملے گا بہتری کی توقع کم ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان کے قرضوں کا بھاری حصہ چین، پیرس کلب کے رکن ممالک کے علاوہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی اداروں سے حاصل کردہ ہے۔

’پانی سر سے اونچا ہوگیا‘

آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو اپنی کرنسی پر حکومتی کنٹرول ختم کرنے اور ٹیکس وصولی کے اہداف پورے کرنے کے لیے نئے ٹیکسز کے نفاذ کے لیے دباؤ کا سامنا ہے۔

معاشی ماہرین کے بقول حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے روپے کی قدر مصنوعی طور پر بحال نہیں رکھ پارہی ہے اور یوں اس میں شدید کمی دیکھی جارہی ہے جب کہ پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس سمیت دیگر اشیا پر سیلز ٹیکس کی شرح میں بھی مزید اضافہ کیا گیا ہے۔

تاہم اسٹیٹ بینک کے سابق ڈپٹی گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط واقعی سخت ہیں لیکن فی الحال اس معاشی گرداب سے نکلنے کے لیے ہمارے پاس آئی ایم ایف کے سوا کوئی متبادل نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف بالواسطہ ٹیکسز عائد کرکے ٹیکس اہداف پورے کرنے پر زور دے رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ٹیکسز غریب اور کم آمدن والے طبقات کو زیادہ پریشان کرتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب رئیل اسٹیٹ، ریٹیل سیکٹر اور زراعت کے شعبے سے آنے والی آمدن پر کوئی خاص ٹیکس عائد نہیں کیا گی ہے۔ یہ ٹیکس براہ راست امیروں کو متاثر کرسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ معاشی تحفظ کےپروگرام بمشکل 90 لاکھ لوگوں کی کسی حد تک معاشی ضرورت کو پورا کررہا ہے۔ جبکہ خود عالمی بینک کی غربت کی تعریف کے تحت اس وقت پاکستان میں نو کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

ڈاکٹر مرتضیٰ سید کے مطابق پاکستان پر واجب الادا غیر ملکی قرضوں کے بارے میں بھی آئی ایم ایف کی پالیسی واضح نہیں ہے۔ نئی قسط کے طور پر پاکستان کو تقریبًا ایک ارب ڈالر دیے تو جارہے ہیں لیکن پاکستان سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے وہ خود اپنے بین الاقوامی قرضوں کی ری شیڈیولنگ اور ری اسٹرکچرنگ کے لیے بات کرے۔

ان کےخیال میں یہ ایک غیر مناسب عمل ہے اور آئی ایم ایف کا کام ہے کہ وہ اپنے رکن ممالک کو ایسی معاشی صورتِ حال سے نکلنے کی حکمتِ عملی بتائے۔

سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ معاشی اصلاحات کو آئی ایم ایف ہی نہیں بلکہ خود پاکستان کے دوست ممالک ناگزیر قرار دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اب پانی سر سے اونچا ہورہا ہے۔ معیشت کے ہر شعبے میں قلیل مدت اور طویل مدت کی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ فوری طور پر قرضوں کی ری شیڈیولنگ کے لیے کوششیں کرنی چاہییں۔

’زرِمبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالرہوجائیں گے‘

ادھر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک بار پھر دعوی کیا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا اور پاکستان تمام ادائیگیاں بروقت کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

جمعے کو اسلام آباد میں پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غیر ملکی زر مبادلہ کے زخائر جلد ہی بڑھ جائیں گے۔ پچھلے ایک ماہ میں پہلے ہی ان ذخائر میں تقریباً ایک ارب ڈالر اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے چین کو دو ارب ڈالر واپس بھی دیے ہیں اور دوسرے قرض دہندگان کو ساڑھے تین ارب ڈالر کی ادائیگی کی۔

انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ چند روز میں انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک چائنہ سے1.3 ارب ڈالر موصول ہوجائیں گے جس پر مذاکرات مکمل ہوگئے ہیں۔ جبکہ جون کے اواخر تک مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر کی سطح پر آجائیں گے۔

اسحاق ڈار نے الزام عائد کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت کی خراب حکمرانی اور بدانتظامی نے معیشت کو تباہی سے دوچار کیا۔ پچھلی حکومت آئی ایم ایف معاہدے کے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی۔

انہوں نے ملک میں حالیہ مہنگائی کی لہر کو بھی گزشتہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کا شاخسانہ قرار دیا۔

سابق وزیرِ اعظم عمران خان اپنی معاشی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہیں اور ملک کے معاشی حالات کے لیے پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG