حکومت نے کالعدم قرار دی جانے والی مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکال دیا ہے تاہم جماعت کے امیر سعد حسین رضوی اب تک حراست میں ہیں۔
البتہ تحریکِ لبیک نے 11 روز سے وزیرِ آباد میں جاری دھرنا ختم کرتے ہوئے لاہور میں اپنے مرکز مسجد رحمت العالمین جانے کا اعلان کر دیا ہے۔
تحریکِ لبیک کا اس بارے میں کہنا ہے کہ جماعت کے سابق امیر خادم رضوی کی برسی تک یہ یہ دھرنا جاری رہے گا اور اس میں جماعت کے سربراہ سعد رضوی بھی جلد شریک ہوں گے۔
اس اعلان کے بعد تحریکِ لبیک کے کارکنوں نے وزیرِ آباد سے لاہور کی طرف روانہ ہونے کے لیے سامان باندھنا شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ کئی روز سے علاقہ میں بند انٹرنیٹ سروسز جزوی طور پر بحال ہونا شروع ہو رہی ہیں۔
ٹی ایل پی کے ترجمان صدام بخاری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ معاہدے کے بعد حکومت کی طرف سے عمل درآمد کے بعد مشاورت سے دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اب دھرنا لاہور میں تحریک کے مرکز مسجد رحمت العالمین میں جاری رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ لاہور میں یہ دھرنا مسجد کے اندر ہو گا اور باہر ٹریفک کو نہیں روکا جائے گا۔
ٹی ایل پی نیکٹا کی فہرست سے خارج
حکومت کی طرف سے کالعدم تنظیموں کی بنائی ہوئی فہرست میں سے تحریکِ لبیک پاکستان کا نام نکال دیا گیا ہے۔
اتوار کو وزارتِ داخلہ کے نوٹی فکیشن کے بعد پیر کو انسدادِ دہشت گردی کے قومی ادارے نیکٹا کی ویب سائٹ پر فہرست کو اپ ڈیٹ کر دیا گیا اور 79 نمبر پر موجود تحریکِ لبیک کا نام فہرست سے خارج کر دیا گیا۔
اس وقت اس فہرست میں 78 کالعدم جماعتوں کے نام موجود ہیں جب کہ وزارتِ داخلہ کی واچ لسٹ میں چار اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی فہرست میں شامل دو جماعتوں کے نام بھی الگ سے شامل ہیں۔
پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے رواں سال اپریل میں ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دیا تھا لیکن حالیہ عرصے میں حکومت سے ہونے والے ایک معاہدے کے تحت اس کے پرانے اسٹیٹس کی بحالی کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔
نوٹی فکیشن کے بعد اب ٹی ایل پی کے ساتھ لفظ 'کالعدم' نہیں لکھا جائے گا اور یہ جماعت ملک بھر میں اپنی مذہبی و سیاسی سرگرمیاں جاری رکھ سکے گی۔
ٹی ایل پی کے تمام منجمند اکاؤنٹس کھول دیے گئے ہیں اور اب پارٹی کے ذمے داران اپنے اکاؤنٹس سے رقوم نکلوا یا جمع کرا سکتے ہیں۔
حکومتی نوٹی فکیشن کو انسداد دہشت گردی کے ادارے 'نیکٹا' کو بھی بھیجا گیا ہے جہاں کالعدم جماعتوں کی فہرست میں 79 نمبر پر موجود اس جماعت کا نام نکالا جائے گا۔
ٹی ایل پی کا نام کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکالے جانے پر سوشل میڈیا پر حکومت تنقید کی زد میں ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ایک جماعت جس نے کئی پولیس اہل کاروں کو ہلاک کیا اسے صرف پرامن رہنے کے وعدے کی بنیاد پر کس طرح کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکالا جا سکتا ہے؟
واضح رہے کہ وفاقی وزارتِ داخلہ کے مطابق پنجاب حکومت نے ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ واپس لینے کے لیے جماعت کی درخواست پر غور کے بعد سفارشات تیار کر کے وزارتِ داخلہ کو ارسال کی تھیں۔
وزارتِ داخلہ نے یہ سمری وفاقی کابینہ کو ارسال کی جسے کابینہ نے منظور کر لیا تھا۔ جس کے بعد اتوار کی شب وزارتِ داخلہ نے ٹی ایل پی سے پابندی ختم ہونے کا نوٹی فکیشن جاری کیا۔
پابندی کا یہ خاتمہ حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان ہونے والے معاہدے کے باعث ہو سکا ہے۔ پنجاب حکومت نے معاہدے کے تمام نکات پر عمل درآمد کر لیا ہے، تاہم جماعت کے امیر سعد رضوی کی نظر بندی اب تک ختم نہیں ہو سکی۔
صوبائی حکومت نے ٹی ایل پی کے 577 کارکنوں کے نام فورتھ شیڈول سے نکال دیے ہیں اور 2100 سے زائد گرفتار کارکنوں کو رہا کر دیا ہے۔
پنجاب حکومت ٹی ایل پی کے کارکنوں پر قائم مقدمات کے حوالے سے عدالتوں میں نرم رویہ اختیار کرے گی۔
جاری کردہ نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ ٹی ایل پی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ احتجاجی رویہ تبدیل کرے گی اور پاکستان کے آئین و قانون پر عمل پیرا ہو گی۔
ٹی ایل پی کا احتجاج
فرانس کے سفیر کی ملک بدری اور سعد رضوی کی رہائی کے معاملے پر 12 ربیع الاول کو لاہور میں ٹی ایل پی کے مرکز پر شروع ہونے والا میلاد کا اجتماع میلاد کے بعد احتجاج کا اجتماع بن گیا تھا اور مرکزی قائدین نے اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا تھا۔
بعد ازاں حکومت کو دی گئی ڈیڈلائن پر حکومت کی طرف سے کوئی ردعمل نہ آنے پر جماعت نے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کیا اور اس دوران کئی مقامات پر خونریز جھڑپیں دیکھنے میں آئیں جس کے نتیجے میں پانچ پولیس اہل کار ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
حکومت نے اس جماعت سے عسکری جماعت کے طور پر نمٹنے کا فیصلہ کیا تھا اور پنجاب حکومت کی درخواست پر 60 روز کے لیے رینجرز کو اختیارات سونپ دیے تھے۔
صورتِ حال زیادہ خراب ہونے پر وزیر آباد کے قریب مظاہرین کے رکنے پر رویتِ ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن سمیت بریلوی مکتبۂ فکر کے کئی علما مذاکرات کے عمل میں شامل ہوئے اور اعلیٰ حکومتی شخصیات سے مذاکرات کیے گئے۔
مذاکراتی عمل سے وزیرِ داخلہ شیخ رشید اور وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کو دور رکھا گیا۔ حکومت کی جانب سے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور علی محمد خان نے علما کے ساتھ مذاکرات کیے۔
اطلاعات کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی مذاکرات کے عمل میں کردار ادا کیا اور ٹی ایل پی کی جانب سے مذاکرات میں شریک بشیر فاروقی نے اس بات کی تصدیق بھی کی۔ تاہم حکومت کی طرف سے اس بارے میں کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا۔
مذاکرات کے بعد حکومت نے ایک خفیہ معاہدے کے بارے میں بتایا جس کی تفصیلات سے میڈیا اور عوام کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ حکومت کا کہنا تھا کہ اس بارے میں تفصیلات مناسب وقت پر سامنے آ جائیں گی اور اب جماعت کو کالعدم فہرست سے نکالنے کے بعد اس معاہدے کے نکات سامنے آ رہے ہیں۔
پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں نے اس معاہدے کی تفصیل سے عوام کو آگاہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاہم حکومت نے اب تک اس معاہدے کی مکمل تفصیلات عام نہیں کیں۔
سعد رضوی کب رہا ہوں گے؟
سعد رضوی کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت نظر بند کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ان کی رہائی انتظامی حکم کے ذریعے ممکن نہیں۔
حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان ہونے والے معاہدے کا اہم نکتہ سعد رضوی کی رہائی ہے۔ امکان ہے کہ ریویو بورڈ کی طرف سے اس بارے میں فیصلے کے بعد انہیں رہا کیا جا سکے گا۔
اس ریویو بورڈ میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس مقبول باقر سمیت لاہور ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کے جج شامل ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے سعد رضوی کی نظربندی کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا تاہم پنجاب حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس نے نظربندی کے خاتمے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے یہ معاملہ دوبارہ لاہور ہائی کورٹ کو بھیج دیا تھا اور ساتھ یہ حکم بھی جاری کیا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ اس معاملے کو دیکھے۔
پس منظر
پاکستان کی حکومت نے گزشتہ برس 16 نومبر کو اسلام آباد میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے کے ساتھ دھرنا دینے والی جماعت ٹی ایل پی کے سابق سربراہ خادم حسین رضوی سے چار نکاتی معاہدہ کیا تھا جس کے تحت حکومت کو دو سے تین ماہ کے اندر پارلیمان سے قانون سازی کے بعد فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنا تھا۔
اس معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کے بعد فروری 2021 میں مذکورہ جماعت اور حکومت کے درمیان ایک اور معاہدہ ہوا جس کے تحت حکومت کو 20 اپریل تک فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے وعدے پر عمل کرنے کی مہلت دی گئی تھی۔
ٹی ایل پی کے ساتھ ہونے والے دوسرے معاہدے پر اُس وقت کے وزیرِ داخلہ اعجاز شاہ اور وزیر مذہبی امور نورالحق قادری کے دستخط موجود تھے۔ اس معاہدے پر بھی عمل درآمد نہ ہوا اور 15 اپریل کو جماعت کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔
بعض حکومتی شخصیات کا کہنا ہے کہ اس جماعت کو سیاسی دھارے میں لایا جا رہا ہے، لیکن یہ جماعت تمام انتخابات میں پہلے ہی حصہ لے رہی تھی کیوں کہ انہیں کالعدم قرار دیے جانے کے بعد سپریم کورٹ کے ریفرنس کے ذریعے اس جماعت پر پابندی عائد نہیں کی گئی تھی۔
یہ جماعت لگاتار سیاسی طاقت حاصل کر رہی ہے اور گزشتہ الیکشن میں ٹی ایل پی نے 22 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے۔