حکومتِ پاکستان نے ڈرگ پرائسنگ کمیٹی کی سفارشات پر ملک میں نئی ادویات کو رجسٹرڈ کرنے اور پہلے سے موجود ادویات کی قیمتوں کے دوبارہ تعین کی منظوری دی ہے۔ اس فیصلے کے بعد بیشتر ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے جبکہ چند دواؤں کی قیمتوں میں کمی بھی دیکھی گئی ہے۔
رواں ماہ پانچ اگست کو پاکستانی حکومت کے ادارے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی جانب سے جاری کردہ مراسلے کے مطابق 49 نئی ادویات اور ان میں استعمال ہونے والے خام مال (سالٹ) کی ریٹیل پرائس مقرر کرنے کی منظوری دی گئی۔ جس کے بعد تقریباً 32 دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔
نوٹی فکیشن کے بعد نئی ادویہ کی قیمتوں کا تعین اور پہلے سے دستیاب ادویہ کی قیمتوں میں ردوبدل کا اطلاق مقامی اور غیر ملکی ادویہ ساز کمپنیوں کی ادویات پر ہو گیا ہے۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے بعد ذیابیطس، انسولین، سرطان، آنتوں، معدے، کیلشیم، وٹامن اور جسم میں کولیسٹرول کی مقدار کو قابو میں رکھنے والی دیگر ادویہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
قیمت میں اضافہ یا دوبارہ تعین؟
البتہ پاکستان کی مقامی ادویہ ساز کمپنیاں اِس تاثر کو غلط قرار دیتی ہیں کہ حالیہ دِنوں میں دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
کمپنیوں کے مطابق ایک سیاسی جماعت اِس مسئلے کو زیادہ اٹھا رہی ہے حالاں کہ اصل میں قیمتیں کم ہوئیں ہیں۔
مقامی ادویہ ساز کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فارماسوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے چیئرمین اور ایک مقامی دوا ساز کمپنی 'شاذوذکا' کے چیف ایگزیکٹو میاں محمد ذکا الرحمٰن کہتے ہیں کہ اگر دیکھا جائے تو اورجنیٹر کی قیمت زیادہ ہوتی ہے جبکہ جنیرک کی قیمت کم ہوتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پی پی ایم اے کے چیئرمین محمد ذکا الرحمٰن نے کہا کہ یہ بات درست نہیں ہے کہ ادویات کی قیمتوں میں 100 سے ڈیڑھ سو فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 50 ہزار ایسی ادویات ہیں جب بھی ان کی قیمیتوں کا دوبارہ تعین کیا جاتا ہے تو کچھ کی قیمتیں کم ہو جاتی ہیں جبکہ کچھ کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔
ذکاالرحمٰن بتاتے ہیں کہ رواں سال میں ادویات کی قیمتوں میں فی الحال کوئی اضافہ نہیں ہوا جو کہ پانچ فی صد سے سات فی صد تک ہو سکتا ہے۔ اس کی ابھی درخواستیں جمع ہو رہی ہیں۔ اس کے بعد باقاعدہ حکومتی اجازت کے بعد رواں سال کے آخر میں یا نئے سال کے شروع میں ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔
ان کے مطابق ڈریپ کے حالیہ فیصلے سے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا ہے بلکہ یہ صرف قیمتوں کا تعین ہے۔ آٹھ سے دس دواؤں کی قیمتیں دوبارہ مقرر کی گئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ڈریپ نے ایک سطح پر تمام کمپنیوں کی قیمتوں کو مقرر کردیا ہے۔ اس سے قبل کسی دوا کی قیمت زیادہ تھی کسی کی کم۔ البتہ اس کے بعد کچھ دواؤں کی قیمت کم ہوئی ہے اور کچھ کی زیادہ ہوئی ہیں۔
پاکستان کی ڈرگ پرائسنگ پالیسی 2018 کے تحت ادویہ ساز کمپنیوں کو یہ اختیار ہے کہ وہ یکم جولائی سے ادویات کی قیمتوں میں مہنگائی کی شرح یعنی کنزیومر پرائس انڈیکس کے تحت اضافہ کر سکتی ہیں۔
پاکستان میں غیر ملکی دوا ساز کمپنیوں کی نمائندہ تنطیم فارمابیورو کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عائشہ ٹمی حق ذکا الرحمٰن سے اتفاق کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ حالیہ اضافہ قیمتوں میں نہیں ہوا۔ صرف دوبارہ تعین کے لیے قیمتوں میں کمی بیشی ہوئی ہے۔
عائشہ ٹمی حق کہتی ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح بہت زیادہ ہے جو حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ اس کے باعث ہر ایک چیز خواہ اس کا تعلق فارماسوٹیکل کمپنی سے ہو یا کسی اور کمپنی سے سب مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عائشہ ٹمی نے کہا کہ ہر سال پاکستان کا ادارہ شماریات اپنے اعداد و شمار جاری کرتا ہے۔ جس میں بتایا جاتا ہے کہ کس چیز کی قیمت میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔
اُن کے مطابق اُس انفلیشن (افراط زر) ریٹ پر قواعد کے مطابق فارما سوٹیکل کمپنیاں کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کو دیکھتے ہوئے ادویات کی قیمتوں کا تعین کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ادارۂ شماریات کے مطابق ڈریپ سو فیصد قیمتوں میں اضافے کی منظوری نہیں دیتی۔ ان میں چھ فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے اور ایک خاص شرح کے مطابق قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔
’قیمتوں میں اضافے کی خبر درست نہیں‘
وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان بتاتے ہیں کہ کسی بھی دوا کی قیمت مقرر کرنے کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں ایک طے شدہ طریقہ کار موجود ہے۔ جس کے تحت کسی بھی دوا کی قیمت مقرر کی جاتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ قیمتوں کے اضافے کی خبر درست نہیں ہے۔ کسی بھی دوا کی قیمت میں اضافے کی منظوری حکومت دیتی ہے۔
ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ اگر کسی ایک دوا کا دس سال قبل پاکستان میں اندراج (رجسٹرڈ) ہوا ہے اور اس کی قیمت مقرر کر دی جاتی ہے تو بعد ازاں ڈالر کی قیمت اور دیگر پہلوؤں کے باعث اس کی قیمت کم یا زیادہ ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی دوا کی قیمت کا تعین کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کے تحت کیا جاتا ہے۔ جس کو حکومت غور سے دیکھتی ہے۔ حکومت کسی بھی دوا کی قیمت کا دوبارہ تعین کرنے یا نئی قیمت مقرر کرنے سے قبل بہت سے پہلوؤں کو دیکھتی ہے۔
ان کے مطابق حکومت دیکھتی ہے کہ کسی بھی دوا کی قیمت خریدار کی پہنچ سے باہر نہ ہو جائے یا بازار میں دستیاب ہی نہ ہو سکے۔
ادویہ فروخت کرنے والے ریٹیلرز کے مطابق حکومت کی جانب سے ادویات کی قیمتوں کے دوبارہ تعین کے بعد بیشتر ادویات کی قیمتوں میں تقریباً پانچ فی صد سے 30 فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے جبکہ کچھ ادویات کی قلت بھی دیکھنے میں آ رہی ہے۔