|
اسلام آباد _ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جمعے کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ جسٹس عیسیٰ کا بطور چیف جسٹس دور جہاں سیاسی اور عدالتی تنازعات سے بھرپور رہا تو وہیں اُن کے بعض فیصلوں کی وجہ سے ملک کے سیاسی منظرنامے میں بڑی تبدیلیاں رُونما ہوئیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے اسٹیبلشمنٹ اور تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ اختلافات رہے اور بعض فیصلوں کی وجہ سے اُنہیں شدید تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
بطور جج اور پھر بطور چیف جسٹس ان کا تمام دور ہنگامہ خیز رہا۔ مجموعی طور پر تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ان کے تعلقات کچھ اچھے نہیں تھے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ ان کا تعلق زیادہ تلخ رہا۔
پی ٹی آئی نے اپنے دورِ حکومت میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف بیرونِ ملک غیر قانونی جائیداد بنانے کا ریفرنس بنایا۔ لیکن ساتھی ججز کے دیے گئے فیصلے کی وجہ سے جج برقرار رہے اور بعد میں چیف جسٹس بھی بنے۔
پی ٹی آئی حکومت جانے کے بعد اور الیکشن میں انتخابی نشان کیس میں عدالتی فیصلے پر اگر کسی جج کی سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ ٹرولنگ ہوئی تو وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہی تھے۔
ماہرین کے مطابق بطور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں جہاں ایک طرف جوڈیشنل ایکٹوزم میں کمی ہوئی وہیں ملک بھر کی عدالتوں میں زیرِ التوا کیسز کی تعداد میں خاطرخواہ کمی نہ ہو سکی۔ سپریم کورٹ میں بھی اس وقت زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 60 ہزار کے قریب ہے۔
قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں بھی ماہرین کے مطابق ججز کے درمیان اختلافات نمایاں رہے۔ یہ مسئلہ ان کی ملازمت کے آخری روز تک نظر آتا رہا، جب ان کے ساتھی جج جسٹس منصور علی شاہ ان کے الوداعی ریفرنس میں شرکت کرنے کے بجائے عمرے پر روانہ ہو گئے۔
جسٹس منصور علی شاہ سمیت سپریم کورٹ کے پانچ ججز نے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے فل کورٹ ریفرنس میں بھی شرکت نہیں کی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اس بارے میں رجسٹرار کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے ساتھی ججز میں تفریق پیدا کی۔
فل کورٹ ریفرنس میں سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کے علاوہ جسٹس ملک شہزاد، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک بھی شریک نہیں ہوئے۔
قاضی فائز عیسیٰ جج کس طرح بنے؟
کوئٹہ میں پیدا ہونے والے قاضی فائز عیسیٰ نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ اور پھر کراچی سے حاصل کی۔ کارپوریٹ سیکٹر کے بہترین وکیل کی پہچان رکھنے والے وکیل قاضی فائز عیسیٰ ان ججوں کے سامنے پیش نہیں ہوئے جنہوں نے تین نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے تحت حلف اُٹھایا تھا۔
سپریم کورٹ نے جب 31 جولائی 2009 کو اپنے ایک فیصلے میں تین نومبر 2007 کی ایمرجنسی کو غیر قانونی قرار دیا تو بلوچستان ہائی کورٹ کے تمام جج مستعفی ہو گئے۔
ان حالات میں جسٹس فائز عیسٰی کو بلا کر انہیں بلوچستان میں کام کرنے کے لیے کہا گیا اور اُنہیں پانچ اگست 2009 کو چیف جسٹس بلوچستان کا عہدہ دے دیا گیا۔ وہ اس عہدے پر براہِ راست تعینات ہوئے تھے۔
بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ 30 دسمبر 2011 کو سپریم کورٹ نے ایک تین رُکنی میمو کمیشن بنایا جو اُس وقت کے پاکستانی سفیر حسین حقانی کی طرف سے امریکی جوائنٹ چیف آف سٹاف مائیک مولن کو دیا گیا تھا۔
یہ کمیشن جسٹس مشیر عالم، جسٹس اقبال حمید الرحمن اور جسٹس قاضی فائز عیسٰی جو کہ بالترتیب عدالتِ عالیہ سندھ، اسلام آباد اور بلوچستان کے چیف جسٹس صاحبان تھے پر مشتمل تھا۔
چیف جسٹس فائز عیسٰی اس کمیشن کے چیئرمین تھے اور انہوں نے مئی 2012 میں اپنی رپورٹ عدالت عظمٰی میں جمع کروا دی تھی۔ میمو کمیشن ہی وہ پہلا کمیشن تھا جس میں ملکی سطح پر ان کی پہچان ہوئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو پانچ ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ کا جج بنا دیا گیا۔
سپریم کورٹ میں جج بننے کے بعد کے تنازعات
سپریم کورٹ کا جج بننے کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ کئی اہم کیسز سنتے رہے لیکن جن کیسز کی وجہ سے ان کا نام زبان زدِ عام ہوا وہ فیض آباد دھرنا کیس تھا۔
اس کیس میں انہوں نے ریاستی اداروں کا باقاعدہ نام لے کر انہیں اپنی حدود کے اندر کام کرنے کا پابند بنانے کے احکامات دیے تھے۔ اس کیس میں ریاستی اداروں پر ہی اس دھرنے کو کروانے اور انہیں سہولیات فراہم کرنے کا بتایا گیا تھا۔
فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ کے دو رُکنی بینچ میں شامل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ ایسے فوجی اہل کاروں کے خلاف کارروائی کرے جو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔
یہ وہ کیس تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان وجہ تنازع بنا اور بعد میں قاضی فائز کے خلاف ریفرنس کی بنیاد بنا۔
بطور جج قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف حدیبیہ پیپر مل نیب ریفرنس کو ٹائم بار ہونے کی وجہ سے کالعدم قرار دیا جس پر اُنہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے سمجھے جاتے رہے لیکن 2016 میں کوئٹہ میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں 60 وکلا کی ہلاکت کے بعد بننے والے کمیشن میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اس وقت کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کی کارکردگی پر شدید تنقید کی اور انہیں اس قسم کے واقعات کا ذمہ دار قرار دیا۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس
تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ان کی اہلیہ کے نام بیرون ملک جائیداد پر صدارتی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں بھجوایا گیا۔
اس ریفرنس پر فائز عیسیٰ نے عدالتِ عظمیٰ میں ہی درخواست دائر کی اور یہ کیس خود لڑا۔
اس کیس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کو تمام الزامات سے بری کیا گیا لیکن اس دوران مختلف ججز کے کے درمیان ہونے والی محاز آرائی کھل کر سامنے آئی۔ لیکن جسٹس فائز عیسیٰ کی حمایت کرنے والے ججز کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ اس کیس سے بری ہو گئے۔
عدالت نے قرار دیا کہ اہلیہ اور بالغ بچے جو زیرِ کفالت نہ ہوں، ان کی جائیداد یا مالی معاملات کا ذمہ دار جج نہیں ہوسکتا۔
فائزعیسیٰ بطور چیف جسٹس اور اہم فیصلے
جسٹس فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے میں بہت سی مشکلات حائل رہیں لیکن اس کے باوجود وہ چیف جسٹس بنے۔ ان کے دیے گئے مختلف فیصلوں پر تنقید اور تعریف کی جاتی رہی ہے۔
سترہ ستمبر 2023 کو چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز تشکیل دیے جن کے مطابق بینچ کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کے بجائے تین سینئر ججز کے حوالے کردیا گیا۔
بطور چیف جسٹس انہوں نے ابتدا میں عام نوعیت کے کئی فیصلے کیے جن میں زیادہ کا تعلق خواتین کے حقِ وراثت سے تھا۔ کئی ایسے مقدمات میں انہوں نے بیوہ اور یتیم خواتین کو جائیداد میں حصہ نہ دینے اور مقدمے بازی کو طول دینے پر ان کے رشتے داروں کو جرمانے کیے۔
فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے شدید اعتراضات سامنے آتے رہے۔ پی ٹی آئی ان کے بیشتر فیصلوں سے ناخوش نظر آئی۔ چاہے وہ نیب ترامیم کیس ہو یا آرٹیکل تریسٹھ اے کا فیصلہ۔ پی ٹی آئی کی طرف سے جسٹس فائز عیسیٰ پر ہمیشہ تنقید ہی کی گئی۔
اس ناراضی اور تنقید میں زیادہ شدت 13 جنوری 2024 کے اُس فیصلے سے آئی جس کی رو سے پی ٹی آئی کو اس کے انتخابی نشان 'بلے' سے محروم کیا گیا۔
تیرہ جنوری 2024 کو چیف جسٹس فائز عیسٰی کی سربراہی میں سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ نے 12 گھنٹے کی سماعت کے بعد الیکشن کمیشن کی اپیل کو منظور کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے اس بنا پر محروم کیا تھا کہ وہ انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا کوئی ثبوت عدالت میں جمع نہیں کرا سکی تھی۔
عدالتی فیصلے کے بعد سپریم کورٹ اور خاص طور پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ کو پی ٹی آئی کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی نہیں بانیٔ پی ٹی آئی عمران خان اور ان کے وکلا نے کئی مقدمات میں ان پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا۔
پی ٹی آئی کی طرف سے اعتراضات اور تنقید تو تھی ہی لیکن مخصوص نشستوں کا کیس ایسا کیس تھا جس سے پی ٹی آئی کو بطور جماعت پارلیمان میں فائدہ پہنچا۔
بارہ جولائی کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کرنے والی 13 رکنی فل کورٹ نے ایک مختصر فیصلہ سنایا۔ آٹھ پانچ کے اکثریتی فیصلے کے ذریعے قرار دیا گیا کہ 8 فروری کے عام انتخابات میں جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جاری کردہ پارٹی ٹکٹس جمع کروائے تھے ان کا تعلق پی ٹی آئی ہی کے ساتھ ہے اور ان 39 اراکین کو آزاد امیدوار خیال نہیں کیا جائے گا جب کہ 41 امیدوار 15 روز کے اندر پی ٹی آئی یا کسی اور جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔
یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا تھا جس کی ان کے علاوہ سات دیگر ججز نے حمایت کی تھی۔ البتہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اقلیتی فیصلے کا حصہ تھے۔ اس فیصلے پر حکومت کی نظر ثانی اپیلیں تاحال زیرِ التوا ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے دیے جانے والے فیصلوں میں ایک فیصلہ چھ ستمبر 2024 کا ہے جس میں پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے نیب قانون میں کی گئی ترامیم کو منظور کیا گیا۔
اس سے قبل سابقہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ نے 15 ستمبر 2023 کو یہ ترامیم کالعدم قرار دے دی تھیں جس پر وفاقی حکومت نے بعد میں نظر ثانی اپیلیں دائر کی تھیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز کو قتل کی دھمکیاں
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اہم کیسز میں سے ایک کیس مبارک ثانی کیس تھا جس میں ایک احمدی شخص مبارک ثانی کو ضمانت دی گئی تھی۔
اس کیس کی وجہ سے جسٹس فائز عیسیٰ کو مذہبی حلقوں کی طرف سے تنقید کے ساتھ قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ تاہم اس بارے میں پنجاب حکومت اور مذہبی جماعتوں کی اپیل پر نظرثانی کی گئی۔
بائیس اگست 2024 کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ نے توہینِ مذہب کے الزام میں انڈر ٹرائل ملزم مبارک ثانی کے فیصلے میں ترمیم کی۔
چھ فروری کو مبارک ثانی کی درخواست ضمانت کے فیصلے کی وجہ سے ملک کی مذہبی جماعتوں میں شدید بے چینی پیدا ہوئی۔ جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے خلاف شدید احتجاج بھی ہوئے۔ یہاں تک کہ 22 اگست کو سپریم کورٹ نے اپنے نظر ثانی شدہ فیصلے میں بھی ترمیم کر دی۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے آرٹیکل 63-اے سے متعلق بھی فیصلہ دیا جس میں انہوں نے حکومتی اپیلیں منظور کیں۔ اس آرٹیکل کے حوالے سے جسٹس عمر عطا بندیال کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اگر کوئی رکن منحرف ہوتا ہے تو وہ ڈی سیٹ بھی ہوگا اور اس کا ووٹ شمار بھی نہیں ہوگا۔ اس فیصلے کو آئین دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے حکومت نے نظرثانی درخواست دائر کی تھی جسے جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم بینچ نے تسلیم کیا جس کے بعد اب کوئی بھی رکن منحرف ہونے کے بعد ڈی سیٹ تو ہوگا لیکن اس کا ووٹ شمار کیا جاسکے گا۔
فائز عیسیٰ کیا میراث چھوڑ کر جارہے ہیں؟
قاضی فائز عیسیٰ کے بطور چیف جسٹس عہد ختم ہونے پر وہ کیا مثال چھوڑ کر جارہے ہیں؟ اس سوال پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی کہتے ہیں جسٹس فائز عیسیٰ کے دور میں جوڈیشل ایکٹوازم کو محدود کیا گیا ہے اور انہوں نے آئین و قانون پر عمل کرنے اور صرف آئین کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنے کی روایت چھوڑی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس طرح سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے زمانے میں وکلا ہر معاملے میں بہت زیادہ سامنے آ رہے تھے انہیں اس سے روکا گیا۔ اسی طرح سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں جس طرح عدالتوں کو استعمال کیا گیا جسٹس فائز عیسیٰ نے اس روایت کو بھی ختم کیا۔
ان کے بقول چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے دور میں اپنی رائے کو اپنے تک رکھنے اور آئین کو مقدم رکھا ہے، اس پر فائز عیسیٰ پر اعتراضات بھی ہوئے اور انہیں ان کی قیمت بھی ادا کرنا پڑی لیکن جسٹس فائز نے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کیے ہیں۔
سندھ بار کونسل کے سینئر وکیل حیدر امام رضوی کہتے ہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا دور ہنگاموں سے بھرپور تھا۔ ان کے چیف جسٹس بننے سے پہلے ہی ان کے خلاف ریفرنس لایا جانا ایک مشکل صورتِ حال تھی جس میں وہ کامیاب ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس فائز نے اچھے فیصلے بھی دیے لیکن ان کی جانب سے بعض آرڈیننسز کو تسلیم کرنا عدلیہ کے لیے اچھا نہیں تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جو بیلنس ایکٹ کرنا تھا وہ اپنے دور کے آخری حصے میں اس طرح سے کامیاب نہیں ہو سکے جیسے وہ ماضی میں رہے تھے۔
حیدر امام کے مطابق جسٹس فائز کے سامنے ایسی قانون سازی ہوئی جس کے ذریعے ایک شخص کو چیف جسٹس بننے سے روکنے کے لیے قانون بنایا گیا۔ ایک شخص کو وکٹم بنایا گیا، فائز عیسیٰ خود بھی ماضی میں وکٹم بنے انہیں اس موقع پر اس شخص کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا لیکن وہ ایسا نہ کر سکے۔
لاہور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل چوہدری آفتاب ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں مداخلت کے عمل کو روکا، پارلیمان کو بالادست بنایا اور پاکستان کی 75ویں سالگرہ پر وہ پارلیمان میں پہنچے اور اس عمل سے پارلیمان کو بالا دست ثابت کیا۔
ان کے بقول، جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف ریفرنس کو بھی بھگتا، اپنے اختیارات بھی ختم کیے، بینچ تشکیل کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی۔ ان کے فیصلوں پر اعتراض کیا جاسکتا ہے لیکن انہیں آئین اور قانون سے ماورا قرار نہیں دیا جاسکتا۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ریاض حنیف راہی کا کہنا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک متنازع چیف جسٹس تھے جو اپنی انا کی تسکین کے لیے بعض فیصلے کرتے رہے۔
ان کے بقول، فائز عیسیٰ کا دور ایسا دور تھا جس میں انہوں نے صحافیوں کے خلاف بھی مقدمات درج کروائے اور صرف بدلے لیتے رہے۔ ان کا دور کسی بھی صورت عدلیہ کے لیے مثالی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
فورم