واشنگٹن —
چین میں عدالتوں نے مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ میں جہادی تحریک کی منصوبہ بندی کرنے اور علیحدگی کی کوششوں کے الزام میں 20 افراد کو قید کی سزائیں سنائی ہیں۔
سنکیانگ کے شہر کاشغر اور بینگول کی عدالتوں سے سزا پانے والے تمام 20 افراد سنکیانگ میں آباد ایغور نسل کے مسلمان ہیں جن کے ذہن، عدالتی فیصلے کے مطابق "مذہبی شدت پسندی سے آلودہ ہیں"۔
سنکیانگ کی مقامی حکومت کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق عدالتوں نے قرار دیا ہے کہ ملزمان موبائل فون اور ڈی وی ڈیز کے ذریعے مذہبی پروپیگنڈے کو فروغ دینے میں ملوث تھے۔
بیان کےمطابق ملزمان نے اپنی جہادی سرگرمیوں کے آغاز میں چینی پولیس اہلکاروں کے قتل کی بھی منصوبہ بندی کر رکھی تھی جس کے لیے ان میں سے بعض نے ہتھیار بھی خرید لیے تھے۔
سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ملزمان کالعدم تنظیم 'ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ' کے پروپیگنڈے کو فروغ دے رہے تھے۔
چین کا الزام ہے کہ ایغور نسل کے مسلمانوں کی یہ تنظیم سنکیانگ کی چین سے علیحدگی اور وہاں ایک آزاد مسلمان ریاست کے قیام کے لیے مسلح جدوجہد کر رہی ہے۔
لیکن جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے ایغور مسلمانوں کی تنظیم 'ورلڈ ایغور کانگریس' کے ایک ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ سزا پانے والے تمام افراد کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ امریکی مالی تعاون سے چلنے والے 'ریڈیو فری ایشیا' کی نشریات سنا کرتے تھے اور انٹرنیٹ پر مذہبی او رثقافتی آزادی سے متعلق گفتگو میں شریک رہے تھے۔
خیال رہے کہ قدرتی وسائل سے مالامال سنکیانگ کا علاقہ اپنے جغرافیائی محل و وقوع کے باعث بھی چین کے لیے خاصا اہم ہے کیوں کہ یہ افغانستان، پاکستان، بھارت اور وسطی ایشیائی مسلمان ریاستوں سے متصل ہے۔
سنکیانگ میں آباد ایغور نسل کے مسلمان ترک زبان بولتے ہیں اور ان کی ایک بڑی تعداد اپنے علاقے، مذہب، زبان اور ثقافت پر چین کی حکمران کمیونسٹ جماعت کی جانب سے عائد قدغنوں سے نالاں ہے۔
بعض چینی حکام سنکیانگ میں ہونے والے حملوں کا ذمہ دار ان مسلمان شدت پسندوں کو ٹہراتے ہیں جنہوں نے ان کے بقول پاکستان میں تربیت حاصل کی ہے۔
لیکن انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کا کہنا ہے کہ چین علاقے میں موجود علیحدگی پسند جذبات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے تاکہ اس علاقے میں اپنی سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری کی موجودگی کا جواز تراشا جاسکے۔
سنکیانگ کے شہر کاشغر اور بینگول کی عدالتوں سے سزا پانے والے تمام 20 افراد سنکیانگ میں آباد ایغور نسل کے مسلمان ہیں جن کے ذہن، عدالتی فیصلے کے مطابق "مذہبی شدت پسندی سے آلودہ ہیں"۔
سنکیانگ کی مقامی حکومت کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق عدالتوں نے قرار دیا ہے کہ ملزمان موبائل فون اور ڈی وی ڈیز کے ذریعے مذہبی پروپیگنڈے کو فروغ دینے میں ملوث تھے۔
بیان کےمطابق ملزمان نے اپنی جہادی سرگرمیوں کے آغاز میں چینی پولیس اہلکاروں کے قتل کی بھی منصوبہ بندی کر رکھی تھی جس کے لیے ان میں سے بعض نے ہتھیار بھی خرید لیے تھے۔
سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ملزمان کالعدم تنظیم 'ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ' کے پروپیگنڈے کو فروغ دے رہے تھے۔
چین کا الزام ہے کہ ایغور نسل کے مسلمانوں کی یہ تنظیم سنکیانگ کی چین سے علیحدگی اور وہاں ایک آزاد مسلمان ریاست کے قیام کے لیے مسلح جدوجہد کر رہی ہے۔
لیکن جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے ایغور مسلمانوں کی تنظیم 'ورلڈ ایغور کانگریس' کے ایک ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ سزا پانے والے تمام افراد کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ امریکی مالی تعاون سے چلنے والے 'ریڈیو فری ایشیا' کی نشریات سنا کرتے تھے اور انٹرنیٹ پر مذہبی او رثقافتی آزادی سے متعلق گفتگو میں شریک رہے تھے۔
خیال رہے کہ قدرتی وسائل سے مالامال سنکیانگ کا علاقہ اپنے جغرافیائی محل و وقوع کے باعث بھی چین کے لیے خاصا اہم ہے کیوں کہ یہ افغانستان، پاکستان، بھارت اور وسطی ایشیائی مسلمان ریاستوں سے متصل ہے۔
سنکیانگ میں آباد ایغور نسل کے مسلمان ترک زبان بولتے ہیں اور ان کی ایک بڑی تعداد اپنے علاقے، مذہب، زبان اور ثقافت پر چین کی حکمران کمیونسٹ جماعت کی جانب سے عائد قدغنوں سے نالاں ہے۔
بعض چینی حکام سنکیانگ میں ہونے والے حملوں کا ذمہ دار ان مسلمان شدت پسندوں کو ٹہراتے ہیں جنہوں نے ان کے بقول پاکستان میں تربیت حاصل کی ہے۔
لیکن انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کا کہنا ہے کہ چین علاقے میں موجود علیحدگی پسند جذبات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے تاکہ اس علاقے میں اپنی سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری کی موجودگی کا جواز تراشا جاسکے۔