چین کےمغربی صوبہٴسنکیانگ کی چینی عدالتوں نے 45 افراد کو قید کی سزا سنائی ہے، جن میں سے کچھ کے اوپر دہشت گردی سے متعلق اور سرحد پار کرنے کے الزامات ہیں۔ یہ بات چین کے سرکاری خبر رساں ادارے، شنہوا نے بتائی ہے۔
سنکیانگ ایغور نسلی اقلیت کا علاقہ ہے، جن میں سے متعدد چین کے استحصال اور انسداد دہشت گردی کےنام پر شدید کارروائی کی شکایت کرتے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ سرحد پار کرنے والے کئی افراد انتہاپسند مذہبی پروپیگنڈہ کا حصہ بن گئے تھے اور وہ جہاد میں شریک ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ اُن میں سے، کم ازکم چند کو تاجکستان پولیس نے افغانستان کی سرحد کے قریب سے پکڑا تھا۔
دیگر افراد کو غیرقانونی سرحد پار کرانے میں مدد فراہم کرنے کے الزامات میں جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔
شنہوا نے خبر دی ہے کہ دو افراد کو عمر قید کی سزا بھی سنائی گئی ہے۔
متعدد ایغور باشندوں نے چینی حکمرانی میں سخت ثقافتی رویوں اور مذہبی جذبات کے خلاف سخت روی دکھانے کے ساتھ ساتھ اُنھیں معاشی طور پر اکیلا کرنے کے حربے استعمال کرنے کی شکایت کی ہے، جس کے باعث وہ ملک سے بھاگ نکلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ چین نے ایغور آبادی پر بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں میں شمولیت کے بارہا الزامات لگائے ہیں، اور حکومت کی یہ کوشش رہی ہے کہ اُنھیں باہر نہ جانے دیا جائے۔
بیجنگ کی جانب سے شدید دباؤ کے نتیجے میں، تھائی لینڈ نے گذشتہ ماہ 100 کے قریب ایغور افراد کو چین واپس بھیج دیا تھا، جس اقدام کی حقوق انسانی کے متعدد گروپوں نے مذمت کی ہے۔
چین اس بات کی تردید کرتا ہے کہ ایغور آبادی کے ساتھ ظلم روا رکھا جا رہا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ اُس نے سنکیانگ میں بڑے پیمانے پر معاشی ترقی کا آغاز کیا ہے۔
ساتھ ہی، چین نے سنکیانگ میں وسیع پیمانے پر سکیورٹی کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے، جہاں حالیہ دِنوں کے دوران پُرتشدد حملے ہوئے ہیں،جن کا چین دولت اسلامیہ پر الزام دیتا ہے۔