چین کے اعداد و شمار کے قومی بیورو کی جانب سے حال ہی میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اپریل کے دوران چین کی صنعتی پیداوار میں سست روی کے بعدمعیشت میں تیزی سے گراوٹ ریکارڈ کی گئی جس کا سبب ملک بھر میں کرونا کے سبب لاک ڈاؤنز بتایا جاتا ہے اور جس کی وجہ سے صارفین نہ دکانوں پر جاسکے نہ ہی اشیا کی تیاری کے لیے کارخانوں میں حاضری دے سکے۔ یوں، سال 2022ء کے لیے چین کے معاشی اہداف پر منفی اثرات غالب ہیں۔
صارفین کے استعمال کی عام اشیا کی پیداوار میں ایک سال قبل کے مقابلے میں 11.1 فی صد کمی واقع ہوئی، جو خوردہ فروشی کے لحاظ سے مارچ 2020ء سے اب تک کا سب سے بڑا معاشی سکڑاؤ بتایا جاتا ہے۔
رائٹرز کی خبر کے مطابق، قومی پیداوار میں یہ کمی تجزیہ کاروں کی پیش گوئی سے کہیں زیادہ ہے، جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پیداوار کی شرح میں کٹوتی 6.1 فی صد کی شرح پر رہے گی۔
دستیاب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، صنعتی پیداوار میں ہر سال 2.9 فی صدکی شرح سے کمی آتی جارہی ہے، اس کی وجہ 'زیرو کووڈ پالیسی' بتائی جاتی ہے یعنی کووڈ کے کیسز کو مکمل طور پر ختم کرنے کی حکمت عملی، جس پر سختی سے عمل کیا جا رہا ہے۔ اس صورت حال کے نتیجے میں رسد کی دستیابی برُی طرح متاثر ہوچکی ہے، جس کے باعث کارخانوں میں پیداواری عمل رک گیا ہے۔ اعداد و شمار سے وابستہ حلقے کان کنی، مینوفیکچرنگ، توانائی اور عوامی سہولیات کے شعبہ جات میں ہونے والی قدرے بہتری کو دکھا کر ان اعداد و شمار کو بہتر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک اخباری کانفرنس میں چین کے شماریات کے قومی ادارے کے ترجمان، فو لنگوئی نے بتایا ہے کہ مینوفیکچرنگ میں 4.6 فی صد کی گراوٹ آئی ہے، جس کا زیادہ تر سبب آٹو موبائل کی صنعت کو پہنچنے والا نقصان ہے۔
اپریل میں موٹر گاڑیوں کی فروخت ایک سال قبل کے مقابلے میں 31.6 فی صد تک گر گئی۔ مینوفیکچرنگ کے عمل کا دارومدار خام مال کو تیار کردہ سامان کی شکل دینے پر منحصر ہے، جیسا کہ کارسازی کا عمل جس میں انسانی محنت، آلات، مشینری اور کیمیائی اجزا کا عمل دخل ہوتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ عام طور پر اس کا سبب وبا کی صورت حال کے اثرات ہیں۔ لیکن، بقول ترجمان، یہ عارضی نوعیت کی صورت حال ہے، جس پر جلد قابو پا لیا جائے گا۔
اہلکار نے کہا کہ چین کی معیشت میں ایسی قوت موجود ہے کہ یہ رفتہ رفتہ مستحکم ہو کر بہتر ہوجائے گی، جس کے بعد اس میں خوش کن ترقی واقع ہوگی۔
اس سال مارچ میں چین میں کووڈ 19 کی نئی لہر آتے ہی چین نے سخت ترین لاک ڈاؤنز پر عمل کیا، جس کے تحت محنت کشوں کو اپنے گھروں تک محدود کیا گیا، جب کہ کارخانے بند ہوگئے یا پھر اپنی استعداد سے کم پیداوار دینے لگے۔
چین میں خاص طور پر غیر ملکی باشندوں کے لیے شنگھائی کا لاک ڈاون انتہائی سفاکانہ ثابت ہوا، اس معاشی مرکز میں دو کروڑ 50 لاکھ لوگ آباد ہیں۔ شنگھائی شہر کے حکام نے حالیہ دنوں میں اعلان کیا کہ وہ کاروباری سرگرمیوں کو مرحلہ وار کھولنے کے حق میں ہیں، جس کے بعد شہر بھر میں چھ ہفتے سے جاری لاک ڈاؤن کا خاتمہ ہو سکے گا۔
بتایا جاتا ہے کہ شنگھائی شہر یکم جون سے معمول کی طرف گامزن ہوگا۔تاہم، فو نے دعویٰ کیا کہ چینی معیشت پروبا کا منفی اثر ''عارضی ہے''، جب کہ، بقول ان کے، وبا کے اثرات پر مؤثر طریقے سے کنٹرول کیا جاچکا ہے، جب کہ کام کاج اور پیداوار پھر سے زور پکڑ رہی ہے۔ چین نے اس سال معیشت کی شرح نمو 5.5 فی صد تک رہنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
آسٹریلیا میں قیام پذیر ایک آزاد چینی معیشت دان، سی لنگ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وبا کے نتیجے میں چینی لوگ اب خرچ کرنے میں محتاط ہیں، جس کے باعث داخلی طور پر اشیا کی طلب میں کمی ہوئی ہے۔
ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق، لاک ڈاون کے دوران شنگھائی کے ریستوران بند پڑے رہے، جب کہ بیجنگ میں ریستوران میں بیٹھ کر کھانا کھانے پر یکم مئی تک بندش لاگو رہی۔
ادھر چین کے چند شہریوں نے سماجی میڈیا پر شکایت کی ہے کہ کووڈ 19 کے ضابطے مشکل کا باعث بنے ہوئے ہیں اور انھوں نے چھوٹے کاروباروں کی کارکردگی سے متعلق تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کاروں کے پرزہ جات کی کمی کے پیش نظر اور ملک میں آمد و رفت میں مشکلات کے باعث ، بیرونی ملکوں سے تعلق رکھنے والے چند مینوفیکچررز نے اپنی پیداوار اور سرمایہ کاری چین سے باہر لے جانےمیں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
تاہم، تائیوان کی تمکانگ یونیوسٹی میں معیشت کے معاون پروفیسر، منگ فین سائی نے وائس آف امریکہ کی مینڈرین سروس کو بتایا ہے کہ غیر ملکی کاروباروں نے گزشتہ 20 سالوں کے دوران پیداوار بڑھانے اور چین کے ساتھ صارفین کے جیسے تعلقات استوار رکھے ہیں، جنہیں وہ ختم کرنے پر تیار نہیں ہوں گے۔
سائی کے بقول، ''کچھ بھی ہو، چین میں داخلی صارفین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جس کے باعث عام حالات میں کارخانے مشکلات پر قابو پا لیتے ہیں اور معیشت اسی رو سے چل پڑتی ہے''۔
دوسری جانب، جمعرات کو وال اسٹریٹ کا بازار حصص سخت سست روی کا شکار رہا۔ ایسو سی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق، معیشت پر افراط زر کے شدید سائے ہیں جو مستقل منڈلا رہے ہیں۔
اس ضمن میں، اجناس میں سرمایہ کاری سے متعلق 'ایس اینڈ پی' کے مروجہ معیار میں گراوٹ دیکھی گئی جس کی وجہ سے رواں سال کے اوائل پر 18 فی صد کی سطح کا ریکارڈ گر اب کر 0.4 کی شرح پر آگیا، تقریباً 20 پوائنٹ کی گراوٹ سے بڑھی ہوئی قیمتوں کا منفی رجحان جاری رہا۔ سرمایہ کار پریشان ہیں کہ افراط زر کے باعث ان دنوں عام صارف سودا سلف خریدنے اور اپنی موٹر گاڑی میں تیل بھروانے کو اولین ترجیح دے رہا ہے، باقی اخراجات ثانوی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔
ڈاؤ جونز صنعتی شرح میں 279 پوائنٹ کی کمی دیکھی گئی۔ جمعرات کی صبح 10 بج کر دو منٹ ویسٹرن ٹائم پر یہ سطح 0.9 فی صد تھی، جب کہ نیس ڈیک میں تیزی محض 0.3 کی شرح پر تھی۔
ماہرین کے مطابق، اس کی وجہ سود کی شرح میں اضافہ، بڑھا ہوا افراط زر، یوکرین میں لڑائی اور چینی معیشت میں سست روی ہیں اوع یہ سب عوامل مل کر سرمایہ کاروں کے بازار حصص کے فیصلوں پر اثرانداز ہورہے ہیں؛ جدید ترین ٹیکنیکل کمنپیوں سے دھیان ہٹ کر روایتی آٹو کارسازی کی جانب پلٹ رہا ہے۔
(خبر میں شامل مواد رائٹرز اور ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)