|
امریکی سینیٹر کرس وین ہولن نے پاکستان کے انتخابات اور پاک امریکہ تعلقات سے متعلق امریکی کانگریس میں بیس مارچ کو ہونے والی سماعت کا خیر مقدم کیا ہے۔
وائس آف امریکہ کی ارم عباسی سے خصوصی بات کرتے ہوئے کرس وین نے کہا کہ کانگریشنل سماعت امریکی سیاست دانوں کو محکمۂ خارجہ کے نائب سیکریٹری ڈونلڈ لو سے سوالات پوچھنے اور انہیں جواب دینے کا موقع فراہم کرے گی۔
امریکی سینیٹر نے پاکستان کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق کہا کہ وہ شفاف عمل پر یقین رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کانگریس کی عوامی سماعتیں سچی معلومات حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
سینیٹر کرس وین ہولن کا یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب پاکستان میں عام انتخابات کے بعد کی صورتِ حال سے متعلق 20 مارچ کو امریکہ کی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی برائے خارجہ اُمور میں سماعت ہونے والی ہے۔
جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لو کو اس سماعت میں بطور واحد گواہ مدعو کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ لو وہی امریکی شخصیت ہیں جن پر سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے پی ٹی آئی حکومت گرانے کا الزام لگایا تھا۔ امریکہ کی جانب سے کئی بار ان الزامات کی تردید کی گئی ہے۔
پاکستان کے حالیہ عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر بات کرتے ہوئے سینیٹر کرس وین نے کہا کہ انتخابی دھاندلی کے الزامات کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے۔ یہ بہت اہم ہے کہ لوگوں کی مرضی کا احترام کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام کا اپنے لیڈروں کو منتخب کرنے کے قابل ہونا ضروری ہے۔ جمہوریت کو اسی طرح کام کرنا چاہیے۔ "میں پاکستانی انتخابات میں بے ضابطگیوں کے کئی الزامات سے پریشان تھا، اسی لیے میں نے یہاں امریکہ میں پاکستانی سفیر کو ایک عوامی خط بھی لکھا۔"
واضح رہے کہ دو درجن سے زائد اراکینِ کانگریس نے صدر جو بائیڈن اور وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کو ایک خط لکھا تھا جس میں مطالبہ کیا تھا کہ وہ پاکستان میں بننے والی نئی حکومت کو اس وقت تک تسلیم نہ کریں جب تک عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات نہ ہو جائیں۔
امریکی کانگریس میں پاکستان کے انتخابات سے متعلق ہونے والی سماعت کو 'پاکستان انتخابات کے بعد؛ ملک میں جمہوریت کے مستقبل کا جائزہ اور پاکستان، امریکہ تعلقات' کا عنوان دیا گیا ہے۔
یہ سماعت ایسے وقت ہو رہی ہے جب آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد پاکستان میں مختلف سیاسی جماعتیں دھاندلی کے الزامات عائد کر رہی ہیں۔ ان جماعتوں میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) سرِفہرست ہے جس کا دعویٰ ہے کہ بڑے پیمانے پر اُن کے مینڈیٹ کو چرایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے قومی اسمبلی کی 93 نشستیں جیتی تھیں جب کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 75 اور پاکستان پیپلز پارٹی نے 54 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔
الیکشن کمیشن انتتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تردید کرتا ہے۔ کمیشن کا یہ مؤقف رہا ہے کہ دھاندلی کے الزامات کے لیے ٹربیونلز اور عدالتیں موجود ہیں۔
ترجمان امریکی محکمۂ خارجہ کا ردِعمل
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ڈونلڈ لو کے کانگریس کے سامنے پیش ہونے کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ محکمۂ خارجہ کے عہدیدار کانگریس کے سامنے شہادت کے لیے پیش ہوتے رہتے ہیں۔ اس چیز کو ہم اپنی ذمہ داریوں کا اہم حصہ سمجھتے ہیں کہ جس میں ہم کانگریس کو پالیسی سازی اور نگرانی کے عمل میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ لو سے متعلق جو بھی الزامات (عمران خان کی طرف سے) ہیں، وہ بے بنیاد ہیں۔
ان کے بقول، "میں نے کئی بار یہ کہا ہے، ایک بار نہیں، دو بار نہیں، دس بار کہا ہے۔ اگر امریکی عہدیداروں کو کوئی خطرہ ہو تو ہم اس کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ اور اپنے سفارت کاروں کی سیکیورٹی کو خطرے میں ڈالنے کی کسی بھی کوشش کی مذمت کرتے ہیں۔"
پاکستان کا ردِعمل
کانگریس کمیٹی کی سماعت پر ردِعمل دیتے ہوئے ترجمان دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اس معاملے سے آگاہ ہے۔
جمعرات کو دفترِ خارجہ میں معمول کی بریفنگ کے دوران ترجمان ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا تھا کہ "پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور تمام معاملات پر تعمیری روابط پر یقین رکھتا ہے۔"
ترجمان دفترِ خارجہ کے مطابق پاکستان بین الاقوامی مسائل پر بحث کے لیے قانون ساز اداروں کے استحقاق کا احترام کرتا ہے۔ تاہم اُمید رکھتے ہیں کہ امریکی کانگریس پاک امریکہ تعلقات کو مضبوط بنانے اور باہمی تعاون کی راہیں استوار کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔
فورم