پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے سعودی عرب کا دورہ مکمل کر لیا ہے اور اب وہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) پہنچ رہے ہیں۔
اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے دوران انہوں نے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان سمیت دیگر اعلی عسکری و سیاسی قیادت سے ملاقاتیں کیں۔ سرکاری طور پر جاری ہونے والے مختصر بیانات میں اگرچہ زیادہ تفصیلات نہیں ہیں البتہ بعض مبصرین فوج کے نئے سربراہ کے اس دورے کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے مختلف شعبوں میں شراکت داری کے علاوہ عسکری سطح پر بھی قریبی تعلقات ہیں۔مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فوج کے نئے سربراہ کا اپنے پہلے دورے کے لیے سعودی عرب کا انتخاب غیر معمولی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
دفاعی امور کے تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے ریاض کا انتخاب اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک اپنی پالیسی میں تبدیلی لا رہے ہیں اور اب ان کا امریکہ و مغرب کی جانب پہلے جیسا جھکاؤ نہیں رہا۔
انہوں نے کہا کہ آرمی چیف روایتی طور پر پہلے دورے کے لیے چین یا سعودی عرب کا انتخاب کرتے ہیں۔ سعودی عرب اب امریکہ کے زیرِ اثر خارجہ پالیسی میں بھی توازن لا رہا ہے جو اس دورے کی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔
نعیم خالد لودھی کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب کی بحری، بری اور فضائی افواج کے اہل کار پاکستان میں تربیت حاصل کرتے ہیں اور یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون کے فروغ کا باعث بنے گا۔
ماہرِ معیشت اور سابق وزیرِ خزانہ سلمان شاہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان بہت گہرے اور قریبی دفاعی، معاشی اور سیاسی تعلقات ہیں جو کہ کئی دہائیوں سے چلے آ رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سلمان شاہ کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کی معیشت قومی سلامتی کا مسئلہ بنی ہوئی ہے اور آرمی چیف کے دورے کے مقاصد میں دوست ملک سے مالی معاونت کا حصول بھی شامل ہوگا۔
جنرل عاصم منیر نے یہ دورہ ایسے وقت میں کیا ہے جب پاکستان شدید معاشی مشکلات سے نکلنے کے لیے دوست ممالک سے توقع لگائے بیٹھا ہے اور سعودی عرب بھی اپنے روایتی اتحادی امریکہ سے فاصلہ اختیار کرتے ہوئے چین و روس کی طرف دیکھ رہا ہے۔
اسلام آباد کو توقع ہے کہ زرِ مبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے سعودی عرب تین ارب ڈالر دے گا۔
وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ ہفتے معیشت کے دیوالہ ہونے کے اندیشے کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ چند دن میں پاکستان کو سعودی عرب سے مالی معاونت مل جائے گی۔
اس حوالے سے جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ اس وقت معاشی استحکام لانا ملک کا بڑا مسئلہ ہے تو ممکن ہے کہ جنرل عاصم منیر کے اس دورے میں دوست ملک کی جانب سے مالی معاونت پر بھی بات ہوئی ہوگی۔ فوج ایک مستحکم ادارہ ہے اور اس کی پالیسی میں تسلسل کے باعث کوئی بھی غیر ملکی حکومت فوجی قیادت سے ضرور بات کرتی ہے۔ اسی طرح فوج نے ہر حکومت کی مدد کی اور یہ مدد قومی مفاد میں کی جاتی ہے۔
انہوں نے مالی معاونت ملنے کے حوالے سے کہا کہ دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ مالی اعانت قرض کی صورت میں ملتی ہے یا اس کے بدلے پاکستان کو اپنی خدمات دینا ہوں گی جس میں سعودی فوج کی تربیت وغیرہ شامل ہے۔
سابق وزیرِ خزانہ سلمان شاہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے رواں سال مجموعی طور پر 20 ارب ڈالرز کی ادائیگیاں کرنی ہیں، جس میں سعودی عرب سے حاصل قرض بھی شامل ہے۔ اسلام آباد چاہتا ہے کہ سعودی عرب سے لیے گئے پرانے قرض میں توسیع کے علاوہ مزید مالی معاونت اور موخر ادائیگیوں پر تیل کا حصول بھی ہوسکے۔
سعودی عرب نے گزشتہ سال بھی پاکستان کو دیے گئے تین ارب ڈالر قرض کی واپسی میں ایک سال کی توسیع کی تھی۔
سلمان شاہ کہتے ہیں کہ اس دورے کے نتیجے میں امید ہے کہ پاکستان سعودی عرب سے مالیاتی سپورٹ پروگرام کے حصول میں کامیاب ہو جائے گا۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر سعودی عرب کا دورہ مکمل ہونے کے بعد متحدہ عرب امارات (یو اے ای) پہنچ رہے ہیں۔ وہ ایسے وقت میں امارات پہنچیں گے کہ جب اطلاعات کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف بھی پیر کو جینیوا سے ابوظہبی جا رہے ہیں۔
نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ یو اےا ی پاکستان کا اہم شراکت دار ملک ہے۔ امارات کے ساتھ پاکستان مالی معاونت، سرمایہ کاری کے علاوہ افغانستان کے ساتھ تعلقات، وسط ایشیائی ممالک سے روابط کے قیام اور سی پیک میں شمولیت پر بات کرسکتا ہے۔
سلمان شاہ کے مطابق وزیرِ اعظم اور آرمی چیف کے دورہ امارات کو قومی سلامتی کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے اور امید ہے کہ اس دورے کے نتیجے میں مالی معاونت سے مشکل معاشی صورت سے نکلنے میں سہارا مل سکے گا۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ امارات اپنے قرض کی واپسی میں توسیع کا اعلان بھی کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ دوست ممالک چاہتے ہیں کہ مالی معاونت کے لیے پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کو جاری رکھے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا دوست ممالک کا دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب اسلام آباد کے پڑوسی ملک افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات میں تناؤ ہے جب کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کارروائیوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔
نعیم خالد لودھی کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے حکومت و عسکری قیادت مخمصے کا شکار ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جنرل عاصم منیر اپنے دورے سے واپسی پر اس گروہ کے خلاف آپریشن کا آغاز کریں گے۔اسلام آباد نے فیصلہ کیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مزید بات چیت نہیں ہو گی اور افغانستان کی طالبان حکومت پر دوست ممالک کے ذریعے دباؤ ڈالا جائے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان کی طالبان حکومت پر دباؤ کے لیے دوست ممالک سے بات چیت کر رہا ہے اور سعودی عرب و امارات کے دورے میں بھی اس پر یقینا گفتگو کی گئی ہوگی۔طالبان پر دوست ممالک کے ذریعے یہ دباؤ اس لیے بھی ضروری ہے کہ انہوں نے وعدہ کر رکھا تھا کہ افغان سر زمین کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔