پاکستان میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے عید کے موقع پر لگائے گئے لاک ڈاؤن کا نفاذ ختم کر کے کاروباری سرگرمیاں بحال کر دی گئی ہیں۔
حکومت کی جانب سے کاروبار کھولنے کا فیصلہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں ٹھہراؤ اور وبا سے متاثرہ افراد کی شرح اور اموات میں کمی کو دیکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔
قومی رابطہ کمیٹی برائے کرونا وائرس کے اعداد و شمار کے مطابق پیر کو گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران تین ہزار 232 افراد وائرس سے متاثر پائے گئے جب کہ 74 افراد اس سے ہلاک ہوئے۔
اس وقت ملک میں فعال کیسز کی تعداد 68 ہزار 223 ہے جو کہ گزشتہ تین ہفتوں میں کم ترین سطح ہے۔
سرکاری پورٹل کے مطابق، ملک میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا کے مثبت کیسز کی شرح 8.8 فی صد رہی۔
پیر سے ادویات اور ضروری اشیا کے علاوہ تمام کاروبار رات آٹھ بجے تک کھلے رہیں گے۔
حکومت نے عید کی تعطیلات کے بعد 50 فی صد حاضری کی شرط کے ساتھ دفاتر بھی کھول دیے ہیں جب کہ ملک بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ بھی بحال ہو چکی ہے۔
تاہم تعلیمی ادارے اور سیاحتی مقامات تاحال بند رہیں گے اور ریستوران پر بیٹھ کر کھانا کھانے پر بھی پابندی برقرار رہے گی۔ ملک بھر کے تعلیمی ادارے 23 مئی تک بند رکھنے کا فیصلہ پہلے سے ہو چکا تھا۔
'لاک ڈاؤن کے اثرات کچھ روز بعد سامنے آئیں گے'
پنجاب کی کرونا ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ کی رکن ڈاکٹر ثومیہ اقتدار کہتی ہی کہ عید پر لاک ڈاؤن کے نفاذ کے باعث کرونا کیسز میں کمی آئی ہے۔
اُن کے بقول گزشتہ تین ہفتوں سے مثبت کیسز اور اموات میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس وقت صورتِ حال مجموعی طور پر بہتر ہے اور عید کے لاک ڈاؤن کے اثرات کا صحیح اندازہ آئندہ ہفتوں میں لگایا جا سکے گا۔
ثومیہ اقتدار کہتی ہیں کہ گزشتہ ماہ سے جزوی لاک ڈاؤن کے نتیجے میں وبا کے پھیلاؤ میں کمی واقع ہوئی اور وہ پر امید ہیں کہ عید کے مکمل لاک ڈاؤن کے نتائج سے اس میں مزید بہتری واقع ہو گی۔
کرونا ویکسی نیشن مہم جاری
پاکستان میں کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین لگانے کا عمل بھی جاری ہے اور حکومت نے گزشتہ ہفتے سرکاری سطح پر لگائی جانے والی ویکسین کے لیے اہل افراد کی عمر 30 اور اس سے زائد برس تک کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ڈاکٹر ثومیہ اقتدار کہتی ہیں کہ ملک بھر میں ویکسین کا اچھا ردِعمل آرہا ہے اور لوگ اسے لگانے پر آمادہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شروع میں لوگوں کو قائل کرنے میں وقت ضرور لگا لیکن اب لوگوں کا اعتماد بحال ہو گیا ہے کہ یہ ویکسین محفوظ ہے۔
تاہم، وہ کہتی ہیں کہ اب بھی ویکسی نیشن کی شرح بہت سست ہے کیوں کہ اس کی دستیابی کے مسائل ہیں اور حکومت ویکسین کی دستیابی کو یقینی بنارہی ہے۔
دوسری جانب چین سے کرونا وائرس ویکسین کی 12 لاکھ خوراکیں پاکستان پہنچ گئی ہیں جس میں 'سائنو ویک' ویکسین کی 10 لاکھ جب کہ 'کین سائنو' کی ایک لاکھ 95 ہزار خوراکیں ہیں۔
تاجروں کو بلوں اور کرایوں میں رعایت دی جائے، تاجر رہنما
پاکستان کی تاجر برادری کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے عید پر مکمل لاک ڈاؤن کے نفاذ نے چھوٹے تاجروں کو مالی بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔
آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر اجمل بلوچ نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت تاجروں کو بجلی گیس کے بلوں اور کرایوں میں رعایت دے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ عید کے دن تاجروں کے کاروبار کے اہم ترین دن ہوتے ہیں جس کا وہ سارا سال انتظار کرتے ہیں۔
اجمل بلوچ کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے باعث بجلی، گیس اور تیل کی مصنوعات کی کھپت کم ہوئی جس سے حکومت کو بھی نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اگر مشاورت سے فیصلے کرتی تو بہتر راستہ نکل سکتا تھا اور کاروبار کے اوقات کار بڑھا کر ہجوم کو کم کیا جا سکتا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ جب حکومت تاجروں کو کسی قسم کی سہولت نہیں دے سکتی تو انہیں کاروبار کو بند کرنے جیسے فیصلے نہیں لینے چاہئیں جس سے عام آدمی متاثر ہو رہا ہے۔
تاہم، حکومت کی کرونا وبا سے نمٹنے والی کمیٹی تاجروں کے اس مؤقف سے اتفاق نہیں کرتی۔
ڈاکٹر ثومیہ اقتدار کہتی ہیں کہ اچھی قومیں اپنے ماضی اور تجربات سے سیکھتی ہیں اور پچھلی عید پر بازار کھلے رکھنے کے باعث وبا میں تیزی آئی تھی اس وجہ سے اس عید پر اسے نہ دوہرانے کا فیصلہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ تاجروں کے لیے مشکل ضرور تھا اور لامحالہ عوام کے لیے بھی یہ مشکل تھا۔ لیکن صحت سب سے پہلے ہے اور لاک ڈاؤن کا اچھا فیصلہ تھا جس کے نتائج اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں کمی کی صورت نظر آرہا ہے۔