رسائی کے لنکس

اعلیٰ عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم؛ نمبر گیم کے لیے جوڑ توڑ اور سیاسی رابطے تیز


  • آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو سینیٹ میں 64 ارکان اور قومی اسمبلی میں 224 ووٹ درکار ہیں۔
  • مولانا فضل الرحمٰن آئینی کورٹ کے قیام کی حمایت کر رہے ہیں؛ حکومتی ذرائع کا دعویٰ
  • آئینی عدالت کے لیے الگ چیف جسٹس کی تعیناتی کی تجویز بھی زیرِ غور ہے: ذرائع
  • سیاسی رابطوں سے متعلق ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے مؤقف کی وجہ سے حکومت نے عدلیہ سے متعلق قانون سازی میں تبدیلیاں کی ہیں۔
  • پارلیمنٹ میں نمبر گیم کی وجہ سے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب حکومت اور اپوزیشن کے وفود کی جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔
  • پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس کے ارکان کو ڈرا دھمکا کے آئینی ترمیم کے لیے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
  • قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اتوار کو ہونے والے اجلاسوں کا وقت اچانک تبدیل کر دیا گیا۔

اسلام آباد—حکومت کا جوڈیشل پیکج (آئینی ترمیمی بل) اتوار کو پارلیمنٹ میں پیش ہونے کا امکان ہے جس کے لیے رات گئے تک سیاسی رابطے جاری رہے۔ دوسری جانب قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں کا وقت اچانک تبدیل کر دیا گیا ہے۔

اتوار کو دن ساڑھے 11 بجے طلب کیے گئے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس کا وقت بھی تبدیل کر دیا گیا ہے اب قومی اسمبلی کا اجلاس چار بجے جب کہ سینیٹ کا اجلاس شام سات بجے کر دیا گیا ہے۔

دونوں ایوانوں کے اجلاس کا علیحدہ علیحدہ ایجنڈا جاری کیا گیا ہے ۔ جس میں آئینی ترمیمی بل پیش کرنے اور اس پر کارروائی شامل نہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت دونوں ایوانوں کے اجلاس میں رولز معطل کر کے آئینی ترمیمی بل پیش کر کے منظور کرا سکتی ہے۔

حکومت کو آئینی ترمیمی بل کی دونوں ایوانوں سے منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔

اس سے قبل ہفتے کے اجلاس میں ممکنہ طور پر عدلیہ سے متعلق ترامیم کا بل پیش ہونے کی خبریں گردش میں تھیں۔

قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی تقاریر کے بعد یہ کارروائی اتوار تک ملتوی کردی گئی تھی جسے کے بعد سیاسی رابطے تیز ہوگئے تھے۔

مولانا فضل الرحمٰن سے رات گئے تک رابطے

ماہرین کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکا ہے۔ ایوان میں حکومتی ارکان اس مطلوبہ تعداد میں نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں جمیتت علماء اسلام (ف) کی حمایت حاصل کیے بغیر حکومت کے لیے کوئی آئینی ترمیم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

یہی وجہ ہے کہ حکومت جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو آئینی ترمیمی بل کی حمایت کے لیے منانے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہے۔

ہفتے کی شب وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اپنی قانونی ٹیم کے ساتھ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی۔

وزیرِ اعظم کی ملاقات کے بعد وزیرِ داخلہ محسن نقوی اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ ہفتے شب کم از کم دو بار ملاقات کے لیے مولانا فضل الرحمٰن کے گھر پہنچے۔

حکومتی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی۔

صحافیوں کے مطابق ملاقات کے بعد وہ وکٹری کا نشان دکھاتے ہوئے روانہ ہوئے۔ تاہم جے یو آئی (ف) کی جانب سے ہفتے کو سیاسی سرگرمیوں کے بعد بھی آئینی ترمیمی بل کی حمایت کا اعلان نہیں کیا گیا۔

مولانا فضل الرحمٰن کی حمایت آئینی ترمیم کے لیے اہم

اس سے قبل بھی صدر اور وزیرِ اعظم مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقاتیں کرچکے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن سے ہفتے کو رات گئے جہاں حکومتی وفود کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا وہیں اپوزیشن جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے وفد نے بھی مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی۔

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی نے آئینی ترمیمی بل پر حکومت کی حمایت نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔

اتحادی جماعتوں کا آئینی ترمیم لانے کا عندیہ

ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب کو وزیرِ اعظم نے حکومتی اتحاد میں شامل ارکان اسمبلی و سینیٹ کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔

حکومتی ارکان کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف نے عشائیے میں آگاہ کیا کہ اتوار کو ہونے والے اجلاسوں میں آئینی ترمیمی بل پیش کیا جا رہا ہے جس کی منظوری کے لیے حکومتی ارکان کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق شہباز شریف نے خطاب میں کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے اور اس کا تقدس قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کے ملکی و عوامی مفاد میں قانون سازی کی جائے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قومی نوعیت کے معاملات صرف پارلیمنٹ کے ذریعے حل ہونا چاہییں۔

اس سے قبل ہفتے کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن جماعت تحریکِ انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ حکومت تاریخ کی بدترین آئینی ترامیم کرنے جا رہی ہے اور عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے لیے پارلیمانی روایات کو پیروں تلے روندا جا رہا ہے۔

اسد قیصر نے کہا کہ حکومت اپنے اتحادیوں سے بھی آئینی ترامیم کا مسودہ چھپا رہی ہے جب کہ حکومت کے پاس آئینی ترامیم کے لیے دو تہائی اکثریت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ارکان کو اغوا کر کے اور دباؤ میں لا کر دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اس کے خلاف پارلیمنٹ میں مزاحمت کی جائے گی۔

آئینی ترمیمی بل کیا ہے؟

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے تو آئینی ترمیمی بل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں تین برس کے اضافے سے متعلق تھا مگر حکومت کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی اور خاص طور پر مولانا فضل الرحمٰن کے مؤقف کے باعث اب آئینی ترمیمی بل کو وسیع کیا جا رہا ہے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن آئینی کورٹ کے قیام کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس لیے آئینی ترمیمی بل میں آئینی کورٹ کے قیام کی تجویز شامل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان میثاقِ جمہوریت معاہدے میں آئینی معاملات کے لیے آئینی کورٹ کے قیام کی شق بھی شامل تھی۔

آئینی عدالت کے لیے الگ چیف جسٹس کی تعیناتی کی تجویز بھی زیرِ غور ہے۔ نئی عدالت کا مقصد آئینی مقدمات اور مفادِ عامہ کے مقدمات کو الگ الگ کر کے عدالت عظمیٰ پر بوجھ کم کرنا بتایا جاتا ہے۔

آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ججز کی تعیناتی کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کو بااختیار بنانے کے لیے ترامیم بھی شامل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق آئینی عدالت میں آئین کے آرٹیکل 184، 185 اور 186 سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہو گی، آئینی عدالت کی تشکیل میں چاروں صوبوں اور وفاق کے ججز کی نمائندگی کی تجویز بھی زیر غور ہے، آئینی عدالت میں صوبوں کی طرف سے آئین کی تشریح کے معاملات بھی زیرِ غور آسکیں گے۔

ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے سینیارٹی کی موجودہ بنیاد کو تبدیل کر کے نیا طریقہ کار لانے کی تجویز ہے۔ جس کے تحت چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے تین ججز کے نام سامنے آئیں گے جن میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس مقرر کرنے کا اختیار پارلیمانی کمیٹی کو ہوگا۔

مذکورہ تجاویز پر اتحادیوں خاص طور پر مولانا فضل الرحمٰن سے مشاورت کی جارہی ہے۔ اب تک جن نکات پر اتفاق ہوا ہے اس کی روشنی میں آئینی ترمیمی بل کو حتمی صورت دے کر پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔

آئینی ترمیم کے لیے نمبر گیم

آئینی ماہرین کے مطابق آئینی ترمیم کا بل دونوں ایوانوں سے علیحدہ علیحدہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور کرانا لازم ہوتا ہے۔ حکومت کو سینیٹ میں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے 64 اور قومی اسمبلی میں 224 ووٹ درکار ہیں۔

سینیٹ میں حکمران اتحاد کے اراکین کی مجموعی تعداد 55 ہے۔ جس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے 24، مسلم لیگ ن کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے چار اور ایم کیو ایم کے 3 ارکان شامل ہیں۔

سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو مزید 10 ووٹ درکار ہیں۔ اگر حکومت اے این پی کے تین، نیشنل پارٹی کے ایک اور مسلم لیگ ق کے ایک رکن کا ووٹ لینے میں کامیاب ہوجائے تو آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے باقی پانج ارکان درکار ہوں گے۔

مبصرین کا کہنا تھا کہ حکومت جمعیت علمائے اسلام ف کے پانچ ارکان کی حمایت حاصل کر کے ایوان میں درکار ووٹ پورے کر سکتی ہے۔

اسی طرح قومی اسمبلی میں اس وقت حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کے 111، پیپلز پارٹی کے 69، ایم کیو ایم 22، استحکامِ پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ ق کے چار، چار جب کہ مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن ہے۔

حکومتی ارکان کی مجموعی تعداد 213 بنتی ہے۔ اس طرح حکومت کو قومی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئینی ترمیم منظور کرانے کے لیے مزید 12 درکار ہیں۔

ماہرین کے مطابق اگر جے یو آئی کی حمایت حاصل کر بھی لی جائے تو پھر بھی حکومت دو تہائی کے لیے درکار عدد پورے نہیں کر سکتی۔

قومی اسمبلی میں جے یو آئی ارکان کی تعداد 8 ہے۔ اس کی حمایت حاصل کرنے کے بعد بھی حکومت کو مزید چار ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔

اپوزیشن نشستوں پر سنی اتحاد کونسل کے 80، پی ٹی آئی حمایت یافتہ 8 آزاد ارکان، جمعیت علماء اسلام کے 8، بلوچستان نیشنل پارٹی، مجلس وحدت المسلمین اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ایک ایک رکن ہیں۔

ہارس ٹریڈنگ کے الزامات

دوتہائی اکثریت پورے کرنے کے لیے حکومت کو چار آزاد ارکان سے حمایت حاصل کرنا ہوگی جو پی ٹی آئی کی حمایت سے جیت کر آئے ہیں۔

ماہرین کے مطابق آزاد ارکان سے حمایت حاصل کرنے سے حکومت پر سیاسی طور پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگ سکتا ہے اور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ پارٹی فیصلے کے خلاف ووٹ کرنے والے اراکین کے ووٹ شمار نہیں ہوں گے۔

پی ٹی آئی کی حمایت سے جیتنے والے جن ارکان کو آزاد سمجھا جا رہا ہے وہ پی ٹی آئی کے مطابق سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے متعلق فیصلے کے تحت پی ٹی آئی میں تحریری طور شمولیت اختیار کرچکے ہیں اور اس بارے میں تحریری طور پر الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا جا چکا ہے۔

ہفتے کو مخصوص نشستوں کا اکثریتی فیصلہ دینے والے ججز نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر جاری ہونے والے اپنے وضاحتی حکم میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی سے وابستگی کا سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے تمام ارکانِ اسی کے تصور ہوں گے اور عدالتی فیصلے کا اطلاق قومی اور صوبائی اسمبلیوں پر ہوگا۔

XS
SM
MD
LG