رسائی کے لنکس

روپے کی قدر میں مسلسل کمی؛ کیا اب آئی ایم ایف پاکستان کو قرض دے گا؟


پاکستان میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کو مستحکم رکھنے کے لیے لگائی گئی'کیپ' ختم کرنے کے بعد روپے کے مقابلے میں ڈالر بے قابو ہو گیا ہے۔ محض دو روز میں ڈالر کی قیمت میں 33 روپے اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

جمعرات کو تقریباً 10 فی صد کی تاریخی کمی کے بعد جمعے کوایک بار پھر پاکستانی روپے کی قدر میں مزید تقریباً تین فی صد کی گراوٹ دیکھی گئی۔ جمعے کو کاروبار کے اختتام پر انٹر بینک میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 262 روپے 60 پیسے پر بند ہوا جو صرف دو روز قبل 231 روپے کی سطح پر تھا۔



مارکیٹ کے تجزیہ کار آنے والے کاروباری ہفتے میں روپے کی قدر میں مزید کمی کی توقع کر رہے ہیں۔ یہ کرنسی ایڈجسٹمنٹ ایسے وقت میں ہورہی ہے جب پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر میں ایک ہفتے میں 92 کروڑ ڈالر کی بڑی کمی کے بعد یہ ذخائر چار ارب ڈالر سے بھی نیچے پہنچ گئے ہیں۔

بیس جنوری کو ختم ہونے والے ہفتے میں ملک کے پاس کل غیر ملکی ذخائر نو ارب 45 کروڑ امریکی ڈالر رہ گئے تھے جن میں سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس غیر ملکی ذخائرصرف تین ارب 67 کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں۔ مرکزی بینک نے بتایا ہے کہ بیرونی قرضوں کی ادئیگی کے باعث ایک ہفتے میں ذخائر میں 92 کروڑ ڈالرز کی کمی دیکھی گئی۔


ایسی انتہائی مشکل صورتِ حال میں حکومت پاکستان آئی ایم ایف سے تعطل شدہ بیل آؤٹ پروگرام دوبارہ شروع کرنے کے لیے فنڈ کی جانب سے عائد شرائط پوری کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ وہ پر امید ہیں کہ فروری کے شروع میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پا جائے گا اور پاکستان موجودہ معاشی مشکلات سے نکل پائے گا جس کے بعد دیگر مالیاتی ادارے بھی پاکستان کا ساتھ دیں گے۔

دوسری جانب وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہےکہ اس وقت معاشی نمو کو واپس لانا ایک مشکل کام ہے۔ انہوں نے ملک میں معاشی بدحالی کا ذمہ دار پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کے اقدامات کو ٹھہرایا۔

'آئی ایم ایف کرنسی مارکیٹ کو آزاد اور گردشی قرضے ختم کرانا چاہتا ہے'

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ فنڈ کا پروگرام بحال کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی جانب سے کئی شرائط میں سے پہلی شرط کرنسی مارکیٹ کو فلوٹنگ ریٹ پر رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے پاکستانی حکام کی درخواست پر فنڈ کا مشن 31 جنوری سے 9 فروری تک اسلام آباد کا دورہ کرنے والا ہے۔

ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ سات ارب ڈالر قرض پروگرام کے نویں جائزہ اجلاس میں بات چیت ہو گی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ مشن کی توجہ حکومت کی ملکی اور بیرونی استحکام کو بحال کرنے کی پالیسیوں پر مرکوز ہو گی۔


بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کرتے ہوئے پائیدار اور اعلیٰ معیار کے اقدامات کے ساتھ مالیاتی پوزیشن کو مضبوط بنائے۔ توانائی کے شعبے میں عمل داری کو بحال کرتے ہوئے گردشی قرضوں کا خاتمہ کیا جائے، فارن ایکسچینج مارکیٹ کو ٹھیک طریقے سے کام کرنے دیا جائے تاکہ ملک کے بیرونی زرِمبادلہ کے ذخائر میں ہونے والی کمی کو پورا کیا جاسکے۔

"فنڈ اور حکومت کے درمیان بداعتمادی کی فضا موجود ہے"

آئی ایم ایف کے بیان پر کئی معاشی اور سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فنڈ کی جانب سے اس بیان میں قرض پروگرام کی بحالی کے لیے بالکل واضح کردیا گیا ہے کہ پاکستان کو فنڈ سے قرض پروگرام بحال کرانے کے لیے مزید کیا اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

معروف کالم نگار اور اقتصادی تجزیہ کار علی خضر کا کہنا ہے کہ ڈالر پر کیپ ختم کرنے سے ملک کی معاشی بہتری کی امید کی کرن تو دکھائی دے رہی ہے لیکن وزارتِ خزانہ اور آئی ایم ایف کے درمیان اس وقت بھی بداعتمادی کی فضا موجود ہے اور اسحاق ڈار کی ٹیم کو اسے ختم کرنا ہوگا۔

علی خضر کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے کرنسی کو فلوٹنگ ریٹ کی اجازت دینے کے اقدامات بہت کم اور بہت دیر سے کئے گئے اور ایسا لگتا ہے کہ اب انہیں دوسری چیزوں پر بھی آئی ایم ایف سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔

"پہلے یہی اقدامات اٹھا لیے جاتے تو اس قدر نقصان سے بچا جاسکتا تھا"

ماہر معاشیات شہریار بٹ کا کہنا ہے کہ وزیرِ خزانہ کی جانب سے غلط فیصلہ سازی کے باعث ملک کے زرِمبادلہ کے ذخائر میں خطرناک حد تک کمی ہوئی، کرنسی مارکیٹ کو کنٹرول میں رکھنے سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ملک میں ترسیلات زر میں 10 فی صد اور برآمدات میں بھی 16 فی صد کے قریب کمی دیکھی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہی سب پہلے کرلیا جاتا تو آئی ایم ایف کا پروگرام بھی بحال رہتا، ملک کے زرِمبادلہ کے ذخائر میں اس حد تک کمی نہ ہوتی اور دیگر مالیاتی اداروں کے ساتھ قرض پروگرام بحال کرنے کے ساتھ چینی اور اماراتی بینکس کو بھی اپنے قرض ری شیڈول کرنے پر راضی کیا جاسکتا تھا۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG