رسائی کے لنکس

وائس چانسلرز کی تقرری؛ گورنر اور پنجاب حکومت کے درمیان تنازع برقرار


 صوبہ پنجاب میں اِس وقت بہت سی پبلک سیکٹر یونی ورسٹیز بغیر وائس چانسلر کے کام کر رہی ہیں۔
صوبہ پنجاب میں اِس وقت بہت سی پبلک سیکٹر یونی ورسٹیز بغیر وائس چانسلر کے کام کر رہی ہیں۔

  • پنجاب کی کئی سرکاری جامعات میں مستقل وائس چانسلرز نہیں ہیں۔
  • گورنر پنجاب کا کہنا ہے کہ وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے اُن کی توثیق بھی ضروری ہے۔
  • لیکن پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد وائس چانسلرز کی تقرری کا اختیار وزیرِ اعلٰی کے پاس ہے۔
  • ایسا نہیں ہو سکتا کہ جو افسر آپ کہیں وہ میرٹ ہے اور کوئی دوسرا تجویز کرے تو وہ میرٹ پر نہیں ہے: گورنر پنجاب

لاہور -- پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی سرکاری جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرری کا معاملہ تنازع کا شکار ہو گیا ہے۔ پنجاب حکومت نے کچھ یونی ورسٹیز میں مستقل وائس چانسلرز تعینات کر دیے ہیں، تاہم گورنر پنجاب کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے کسی کی منظوری نہیں دی۔

صوبہ پنجاب میں اِس وقت بہت سی پبلک سیکٹر یونی ورسٹیز بغیر وائس چانسلر کے کام کر رہی ہیں۔ رواں برس سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک فہرست کے مطابق پنجاب میں 49 سرکاری جامعات ہیں جن میں سے 29 سرکاری جامعات میں قائم مقام وائس چانسلر ہیں۔

گزشتہ ہفتے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے وائس چانسلر کی تقرری کے لیے وزیرِ اعلٰی مریم نواز کی جانب سے بھیجی گئی ناموں کی سمری پر اختلاف کرتے ہوئے اُسے رد کر دیا تھا۔ گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعلٰی کی جانب سے کوئی بھی نام حتمی طور پر تجویز نہیں کیا جا سکتا۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کا کہنا تھا کہ مستقل وائس چانسلر کی تقرری کے لیے تین نام حروفِ تہجی کے اعتبار سے بھیجے جاتے ہیں جن میں سے کسی ایک کی منظوری دی جائے گی۔

گورنر پنجاب کا مزید کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ جو افسر آپ کہیں وہ میرٹ ہے اور کوئی دوسرا تجویز کرے تو وہ میرٹ پر نہیں ہے۔

گورنر ہاؤس دفتر کے مطابق گورنر پنجاب چاہتے ہیں کہ تمام تعیناتیاں میرٹ پر ہوں۔ وہ بطور چانسلر چاہتے ہیں کہ اِس میں وہ اپنا کردار ادا کریں۔

ذرائع گورنر ہاؤس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چوں کہ وائس چانسلر صاحبان نے بطور چانسلر گورنر پنجاب کے ماتحت کام کرنا ہے تو وہ مستقل وائس چانسلر کی تقرری میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

خیال رہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد کسی بھی صوبے کی سرکاری جامعات میں مستقل وائس چانسلر کی تعیناتی کا اختیار اُس صوبے کے وزیرِ اعلٰی کو دیا گیا ہے۔ جو حتمی امیدوار کا نام گورنر کو بھجوائے گا جس پر گورنر بطور چانسلر دستخط کرنے کے بابند ہوں گے۔

وائس چانسلر کی تقرری کا طریقۂ کار کیا ہے؟

ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) پنجاب کے مطابق کسی بھی سرکاری جامعہ میں وائس چانسلر کی تقرری کے لیے ایک سرچ کمیٹی بنائی جاتی ہے جس میں سابق وائس چانسلرز، ماہرینِ تعلیم، چیف فنانس آفیسر اور نجی اداروں کے ماہرین کو شامل کیا جاتا ہے۔

ایچ ای سی پنجاب کے ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کسی بھی چانسلر کی تقرری کے لیے سرچ کمیٹی اخبارات میں اشتہار دیتی ہے اور اسکروٹنی کے بعد امیدواروں کے انٹرویوز کرتی ہے۔

ایچ ای سی پنجاب کا کہنا تھا کہ سرچ کمیٹی اُس جامعہ کے تین بہترین اساتذہ کا انتخاب کرتی ہے جس میں اُن کے ریسرج پیپرز، تعلیمی قابلیت، تجربہ، تحقیق، انٹرنیشنل پیپرز کی چھپائی اور دیگر مواد کو مدِنظر رکھا جاتا ہے۔

ماہرینِ تعلیم سمجھتے ہیں کہ دونوں دفاتر کے درمیان لڑائی سے تعلیمی اداروں کا تقصان ہو گا۔ لوگ تعلیمی اداروں کی ساکھ پر سوال اُٹھائیں گے۔

ماہرِ تعلیم پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے پارلیمانی نظام میں گورنر کے عہدے کی حیثیت طاقت نہیں رکھتی۔ اُس کے پاس رسمی اختیارات ہیں۔ اُنہوں نے ایوان اور کابینہ کے فیصلوں کی توثیق کرنی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ گورنر صاحب بھی کچھ اپنے افراد کو جامعات کا وائس چانسلر لگوانا چاہتے ہیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ سرچ کمیٹیوں نے کم از کم 400 اہل افراد کو شارٹ لسٹ کر کے انٹرویوز کیے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ طریقہ کار یہی ہے کہ سرچ کمیٹی تین نام وزیراعلٰی کو بھجوائے گی اور وزیراعلٰی اُن بھیجے گئے تین ناموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ وزیراعلٰی کا اختیار ہے کہ وہ فہرست میں شامل کسی بھی اُمیدوار کو حتمی اُمیدوار قرار دے کر گورنر کے پاس بھیجے۔

پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ اگر میرٹ سے ہٹ کر کسی کی تعیناتی کی گئی تو لوگ عدالتوں کا رخ کرتے ہیں جس کے بعد معاملہ مزید لٹک جاتا ہے۔

اُن کے بقول ماضی میں بھی عدالت نے بہت سے مقدمات میں حکم امتناع دیا ہوا تھا جس کے باعث کچھ جامعات مین مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتی نہیں ہو سکی۔

ایچ ای سی پنجاب کے مطابق ایک سرچ کمیٹی وائس چانسلر کی تقرری کے لیے تین نام وزیراعلٰی کو بھجوانے کی پابند ہے۔ اُن میں سے کسی بھی ایک امیدوار کو مستقل وائس چانسلر لگانے کا اختیار وزیراعلٰی کے پاس ہو گا۔

پنجاب کی وزیرِ اطلاعات اعظمیٰ بخاری کہتی ہیں کہ یونی ورسٹیز کے وائس چانسلر کی تقرری کے لیے سلیکشن کمیٹی کی منظوری کابینہ نے دی ہے۔

ایک بیان میں اُن کا کہنا تھا کہ گورنر پنجاب وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں اور انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کابینہ کے فیصلوں کی کتنی اہمیت ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ صوبے کی 29 سرکاری جامعات جن میں میڈیکل یونی ورسٹیز، ویمن یونی ورسٹیز اور جنرل یونی ورسٹیز میں مستقل وائس چانسلر کی تعیناتی کا عمل جاری ہے جو گزشتہ کئی ماہ سے تعطل کا شکار تھا۔ وائس چانسلر کی تقرری تین سال کے لیے ہو گی۔

فورم

XS
SM
MD
LG