لاہور ہائی کورٹ نے انسانی حقوق کے کارکن ادریس خٹک کو فوجی عدالت سے ملنے والی 14 برس قید کی سزا کے خلاف اپیل ایک ماہ میں نمٹانے کا حکم دیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ کے جج جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے جمعرات کو یہ حکم جاری کیا۔
ادریس خٹک کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کی اپنے موکل سے ہونے والے والی ملاقات میں وہ ڈپریشن کا شکار دکھائی دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان سے مبینہ طور پر اعترافی بیان پر زبردستی دستخط کروائے گئے جس کی بنیاد پر انہیں سزا دی گئی ہے۔
ادریس خٹک کو دسمبر 2021 میں جاسوسی اور سرکاری معلومات افشا کرنے کے الزام میں ایک فوجی عدالت نے 14 برس قید کی سزا سنائی تھی۔ ادریس خٹک کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
اس وقت ادریس خٹک کے وکیل کا کہنا تھا کہ فوجی عدالت سے سزا کی تصدیق کے بعد ملٹری کورٹ ایکٹ 1952 اور ملٹری کورٹ رولز 1954 کے مطابق جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں رجسٹرار کورٹ آف اپیل کے پاس اپیل کی جائےگی۔
ان کےبقول کورٹ آف اپیل ایک ماہ کے اندر فیصلہ سنانے کا پابند ہے تاہم تقریباً ایک سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی اب تک ان کی اپیل کا فیصلہ نہیں سنایا جاسکا۔
ادریس خٹک کی گمشدگی کے سات ماہ بعد حکومت نے ان کے فوج کی تحویل میں ہونے کی تصدیق کی تھی۔ ادریس خٹک کے وکیل کے مطابق ان پر سیکیورٹی اداروں کے بارے میں خفیہ معلومات رکھنے اور افشا کرنے کا الزام ہے اور ان کے خلاف 'سیکرٹ ایکٹ' کے تحت کارروائی کی جا رہی تھی۔
ادریس خٹک کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈوکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ادریس خٹک اس وقت اڈیالہ جیل میں موجود ہیں۔ان کی رجسٹرار کورٹ آف اپیل میں ایک سال سے اپیل زیرالتوا ہے۔
کرنل (ر) انعام کا کہنا تھا کہ اب ہم نے اس بارے میں لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ سے رجوع کیا تھا جہاں عدالت نے فوجی کی جیگ برانچ کو جو قانونی معاملات کو دیکھتی ہےحکم دیا ہے کہ ان کی اپیل کا فیصلہ ایک ماہ کے اندر کیا جائے۔
کرنل انعام کا کہنا تھا کہ ادریس خٹک سے ملاقات کے دوران وہ خاصے ڈپریشن میں نظر آئے اور ان کے بقول اُنہیں اغوا کرنے کے بعد ایک عرصے تک نظر بند رکھا گیا۔
کرنل انعام کے مطابق ادریس خٹک تمام الزامات سے انکار کرتے ہیں۔
کرنل انعام کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق کسی بھی سویلین کا کورٹ مارشل نہیں کیا جاسکتا۔ میرے خلاف بھی ایسے ہی الزامات کے تحت کیس کیا گیا تھا لیکن عدالت نے اس بارے میں واضح حکم دیا تھا کہ کسی سویلین کا کورٹ مارشل نہیں کیا جاسکتا۔ اب ادریس خٹک کے کیس میں بھی اسی قانون کے مطابق کیس لڑا جائے گا۔
اس کیس کے حوالے سے نیشنل پارٹی کے ایڈیشنل سیکرٹری قیصر خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اپیل کا فیصلہ نہ ہونے کے باعث انہیں جیل میں رکھا جارہا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ادریس خٹک سے ان کی بیٹیوں کی ملاقات کروائی جارہی ہے ۔
ادریس خٹک کون ہیں؟
ادریس خٹک نے روس سے اینتھروپالوجی میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور بطور محقق ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔
ادریس خٹک کی تحقیق کا ایک بڑا حصہ سابقہ فاٹا، خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے جبری طور پر لاپتا افراد رہے ہیں جب کہ وہ سماجی کارکن کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔
ادریس خٹک نیشنل پارٹی سے منسلک ہیں اور انہیں نومبر 2019 میں اسلام آباد سے اکوڑہ خٹک کے راستے پر صوابی انٹرچینج کے پاس چند سادہ لباس میں ملبوس افراد نے اُن کی گاڑی سے اتار لیا تھا۔