|
ویب ڈیسک—پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی کے حکومتی اعلان کے بعد حکمراں جماعت کے مؤقف میں تبدیلی آ گئی ہے۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے پیر کو اعلان کیا تھا کہ حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے جا رہی ہے۔ تاہم ایک روز بعد ہی منگل کو وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے اس فیصلے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی پر پابندی سے متعلق اتحادیوں سے مشاورت کی جائے گی۔
پی ٹی آئی پر پابندی کے حکومتی اعلان کے فوراً بعد ہی پی ٹی آئی سمیت حزبِ اختلاف کی بعض سیاسی جماعتوں نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا تھا اور اسے حکومت کا جذبات میں کیا جانے والا فیصلہ قرار دیا تھا۔
تجزیہ کاروں اور سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی سے متعلق اعلان سے حکومت کو ہی سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
سینئر صحافی حامد میر کہتے ہیں کہ پابندی کا اعلان پی ٹی آئی کو پیغام تھا اور حکومت نے یہ پیغام سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد بھیجا جس میں پی ٹی آئی کو سیاسی حقیقت قرار دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے۔ اس لیے وہ خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کی حق دار ہے۔
حکومت نے اعلیٰ عدلیہ کے اس فیصلے پر نظرِ ثانی اپیل بھی دائر کر دی ہے۔
حامد میر کے مطابق عدالتی فیصلے کے بعد پی ٹی آئی پر پابندی کا اعلان توہینِ عدالت ہے۔
ان کے بقول حکومت کو اس اعلان کے بعد سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے بھی پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا جب کہ اپوزیشن جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے حکومتی فیصلے کو غیر منطقی قرار دیا۔
دوسری جانب امریکی محکمۂ خارجہ نے بھی منگل کو ایک بیان میں پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا۔
پی ٹی آئی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے پابندی کے حکومتی فیصلے پر تنقید کے بعد حکمراں جماعت نے اپنے مؤقف میں منگل کو اُس وقت لچک دکھائی جب وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے اعلان کیا کہ پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ اب تک نہیں ہوا اور اس معاملے پر اتحادیوں سے مشاورت کی جائے گی۔
اسحاق ڈار نے لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اتحادیوں سے مشاورت کے بعد ہی پی ٹی آئی پر پابندی لگانے یا نہ لگانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کے ثبوت ہیں جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا اور ان ثبوت کی روشنی میں پی ٹی آئی پر پابندی کے معاملے پر لیڈر شپ اور اتحادیوں سے قانون و آئین کے مطابق فیصلہ ہوگا۔
'جذباتی فیصلوں کے نتائج دیکھ چکے'
عوامی نیشنل پارٹی کے رہبر اسفند یار ولی خان کا کہنا ہے کہ حکومت کا پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ غیر منطقی اور سمجھ سے بالاتر ہے۔ جذبات پر مبنی فیصلوں کے نتائج کسی بھی صورت سود مند نہیں ہوتے۔ ماضی میں ہم اس قسم کے جذباتی فیصلوں کے خراب نتائج دیکھ چکے ہیں۔
ایک بیان میں اسفند یار ولی نے کہا کہ نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کی صورت میں ہم ان فیصلوں کا سامنا کرچکے ہیں۔ ماضی کے غلط فیصلوں کے اثرات آج تک سیاست پر نمایاں ہیں۔ جمہوریت اور سیاسی عمل کی مضبوطی کے لیے غلطیوں سے سیکھنا ہوگا۔
نشریاتی ادارے جیو نیوز کے پروگرام ’جیو پاکستان‘ میں گفتگو کرتے ہوئے صحافی حامد میر نے کہا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ کسی سیاسی جماعت کو دبانے کا کبھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
ماضی کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے 1975 میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی لگائی تھی۔ لیکن آج وہ جماعت عوامی نیشنل پارٹی کی صورت میں موجود ہے اور وہ پیپلز پارٹی کی اتحادی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے 2021 میں تحریکِ لبیک پر پابندی لگائی تھی۔ لیکن آج ٹی ایل پی دھرنے دے رہی ہے اور پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
'پابندی کے اعلان کے بعد حکومت کی سبکی ہوئی ہے'
تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں حکومت کشیدگی بڑھا رہی ہے جس کا اسے کوئی فائدہ ہوتے دکھائی نہیں دیتا۔
مقامی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام 'جیو پاکستان' میں بدھ کو بات کرتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ پی ٹی آئی پر پابندی کے حکومتی اعلان کے بعد وزرا اور اتحادی جماعتوں کے بیانات سے حکومت کی سبکی ہوئی ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ کشیدگی بڑھانے کے بجائے معاملات کو سلجھانے پر توجہ دے۔
اسی پروگرام میں تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ایک سیاسی جماعت پر پابندی کا اعلان کر کے آخری حد تک جا چکی ہے۔ اگر حکومت نے ایک بڑی سیاسی جماعت پر پابندی لگائی تو وہ کسی اور نام سے آ جائے گی لیکن اس عمل سے نفرت اور سیاسی تقسیم میں مزید اضافہ ہو گا۔
ارشاد بھٹی نے کہا کہ سیاسی کشیدگی کے خاتمے کے لیے پی ٹی آئی کو بھی چاہیے وہ پیچھے ہٹے اور اپنی توپوں کا رخ اور لڑائی سیاسی میدان میں لڑے۔