واشنگٹن —
ڈیمو کریٹک کانگریس مین ایلن گرے سن کی دعوت پر شمالی وزیرستان کے ایک گاؤں گنڈی کالہ میں ڈرون حملے میں ہلاک ہونےوالی 68 سالہ مامنا بی بی کے خاندان نے اراکین کانگریس اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے آج ڈرون حملوں کے خلاف اپنا مقدمہ پیش کیا۔
اُن کے اِس دورہٴامریکہ کو ایک امریکی تنظیم ’نیو بریو فاؤنڈیشن‘ نے سپانسر کیا ہے۔۔ یہ وہی تنظیم ہے جس نے ڈرونز کے حوالے سے جمائما خان کی ڈاکیو مینٹری
Unmanned- America’s Drone Warsکی تیاری میں تعاون کیا ہے۔
چوبیس اکتوبر2012ء کو عید الاضحیٰ کے دن شمالی وزیرستان کے ایک گاؤں میں ڈرون حملے کا شکار ہونے والی 68 سالہ مامنا بی بی علاقے کی دائی تھیں ۔۔اور حملے کے وقت اپنے گھر کے باہر سبزیاں چن رہی تھیں۔حملے میں ان کے دو بیٹوں کے چھ بچے زخمی ہوئے تھے۔ کئی مہینوں کے علاج کے دوران، رفیق الرحمن کو حکومت سے کسی قسم کی مدد نہیں ملی۔ الٹا اپنے بچوں کے علاج کے لئے اہل علاقہ سے قرض لینا پڑا۔۔آج وہ ڈیمو کریٹک کانگریس مین ایلن گرے سن کی دعوت پر ایک کانگریس کی خصوصی بریفنگ میں شریک ہوئے۔
رفیق الرحمان نے اردو میں بات کرتے ہوئے، 24 اکتوبر 2012 ءکے ڈرون حملے میں اپنی والدہ کی ہلاکت اور اپنے دو اور اپنے بھائی کے چار بچوں کے زخمی ہونے کی تفصیلات بتائیں۔
اُنہوں نے کہا کہ امریکہ میں لوگ سکون کی نیند سوتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ میرے علاقے شمالی وزیرستان میں بھی لوگ سکون کی نیند سوئیں اور ہمارے بچے تعلیم حاصل کریں۔
ان کے بیٹے زبیر الرحمن نے کہا کہ میری دادی گاؤں کی دائی تھی۔ اب وہاں کوئی دائی نہیں۔ لوگ بچوں کو اسکول نہیں بھیجتے، کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ ان کے اسکول پر ڈرون حملہ ہوگا۔۔
بریفنگ میں ریپبلکن کانگریس مین رک نولین سمیت چار مزید کانگریس مین بھی شریک ہوئے۔
کانگریس کے ارکان نے مامنہ بی بی کے بیٹے رفیق الرحمن ان کے پوتے زبیر الرحمن اور پوتی نبیلہ الرحمن سے ڈرون حملے میں ان کی دادی کی ہلاکت پر اظہار افسوس کیا اور ان کا شکریہ ادا کیا کہ کسی نے پہلی مرتبہ ڈرون حملوں کو انسانی چہرہ دیا ہے۔
کانگریس مین گرے سن نے بریفنگ کے خاتمے پر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملوں سے امریکہ کے بارے میں نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈرون کے ذریعے ایک شدت پسند کی جان جاتی ہے۔ لیکن، کتنے ہی بے گناہ اس حملے میں مارے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنے علاقے اور اپنی عوام پر اپنی حاکمیت خود قائم کرنی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستانی فضائیہ بے حد طاقتور ہے اور اُس کے پاس اپنی فضائی حدود کو کنٹرول کرنے کی مکمل اہلیت موجود ہے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ پاکستانی وزیر اعظم کے ڈرون حملے بند کرنے کے گزشتہ ہفتے کے مطالبے کا واشنگٹن نے کوئی جواب نہیں دیا، کانگریس مین ایلن گرے سن نے صرف اتنا کہا کہ اگر پاکستانی حکومت چاہے تو ڈرون پروگرام کل ہی بند ہو سکتا ہے۔
اس بریفنگ میں شرکت کے لئے رفیق الرحمن کے وکیل، شہزاد اکبر کو امریکہ کو ویزا نہیں دیا گیا۔ اُن کی غیر موجودگی میں قانونی امداد دینے والی تنظیم ’رپریو ڈاٹ آرگ‘ کی ایک اور نمائندہ جینیفر گبسن کو رفیق الرحمٰن کا کیس پیش کرنے کے لیے لندن سے واشنگٹن آنا پڑا۔
جینیفر گبسن نے کہا کہ ہمارا مقصد واشنگٹن کو یہ بتانا ہے کہ ڈرون حملوں کا شکار ہونے والے کئی انسان بے گناہ ہیں اور اُن کی ہلاکتوں کی تحقیقات ہونی چاہیئے۔
اُن کے اِس دورہٴامریکہ کو ایک امریکی تنظیم ’نیو بریو فاؤنڈیشن‘ نے سپانسر کیا ہے۔۔ یہ وہی تنظیم ہے جس نے ڈرونز کے حوالے سے جمائما خان کی ڈاکیو مینٹری
Unmanned- America’s Drone Warsکی تیاری میں تعاون کیا ہے۔
چوبیس اکتوبر2012ء کو عید الاضحیٰ کے دن شمالی وزیرستان کے ایک گاؤں میں ڈرون حملے کا شکار ہونے والی 68 سالہ مامنا بی بی علاقے کی دائی تھیں ۔۔اور حملے کے وقت اپنے گھر کے باہر سبزیاں چن رہی تھیں۔حملے میں ان کے دو بیٹوں کے چھ بچے زخمی ہوئے تھے۔ کئی مہینوں کے علاج کے دوران، رفیق الرحمن کو حکومت سے کسی قسم کی مدد نہیں ملی۔ الٹا اپنے بچوں کے علاج کے لئے اہل علاقہ سے قرض لینا پڑا۔۔آج وہ ڈیمو کریٹک کانگریس مین ایلن گرے سن کی دعوت پر ایک کانگریس کی خصوصی بریفنگ میں شریک ہوئے۔
رفیق الرحمان نے اردو میں بات کرتے ہوئے، 24 اکتوبر 2012 ءکے ڈرون حملے میں اپنی والدہ کی ہلاکت اور اپنے دو اور اپنے بھائی کے چار بچوں کے زخمی ہونے کی تفصیلات بتائیں۔
اُنہوں نے کہا کہ امریکہ میں لوگ سکون کی نیند سوتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ میرے علاقے شمالی وزیرستان میں بھی لوگ سکون کی نیند سوئیں اور ہمارے بچے تعلیم حاصل کریں۔
ان کے بیٹے زبیر الرحمن نے کہا کہ میری دادی گاؤں کی دائی تھی۔ اب وہاں کوئی دائی نہیں۔ لوگ بچوں کو اسکول نہیں بھیجتے، کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ ان کے اسکول پر ڈرون حملہ ہوگا۔۔
بریفنگ میں ریپبلکن کانگریس مین رک نولین سمیت چار مزید کانگریس مین بھی شریک ہوئے۔
کانگریس کے ارکان نے مامنہ بی بی کے بیٹے رفیق الرحمن ان کے پوتے زبیر الرحمن اور پوتی نبیلہ الرحمن سے ڈرون حملے میں ان کی دادی کی ہلاکت پر اظہار افسوس کیا اور ان کا شکریہ ادا کیا کہ کسی نے پہلی مرتبہ ڈرون حملوں کو انسانی چہرہ دیا ہے۔
کانگریس مین گرے سن نے بریفنگ کے خاتمے پر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملوں سے امریکہ کے بارے میں نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈرون کے ذریعے ایک شدت پسند کی جان جاتی ہے۔ لیکن، کتنے ہی بے گناہ اس حملے میں مارے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنے علاقے اور اپنی عوام پر اپنی حاکمیت خود قائم کرنی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستانی فضائیہ بے حد طاقتور ہے اور اُس کے پاس اپنی فضائی حدود کو کنٹرول کرنے کی مکمل اہلیت موجود ہے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ پاکستانی وزیر اعظم کے ڈرون حملے بند کرنے کے گزشتہ ہفتے کے مطالبے کا واشنگٹن نے کوئی جواب نہیں دیا، کانگریس مین ایلن گرے سن نے صرف اتنا کہا کہ اگر پاکستانی حکومت چاہے تو ڈرون پروگرام کل ہی بند ہو سکتا ہے۔
اس بریفنگ میں شرکت کے لئے رفیق الرحمن کے وکیل، شہزاد اکبر کو امریکہ کو ویزا نہیں دیا گیا۔ اُن کی غیر موجودگی میں قانونی امداد دینے والی تنظیم ’رپریو ڈاٹ آرگ‘ کی ایک اور نمائندہ جینیفر گبسن کو رفیق الرحمٰن کا کیس پیش کرنے کے لیے لندن سے واشنگٹن آنا پڑا۔
جینیفر گبسن نے کہا کہ ہمارا مقصد واشنگٹن کو یہ بتانا ہے کہ ڈرون حملوں کا شکار ہونے والے کئی انسان بے گناہ ہیں اور اُن کی ہلاکتوں کی تحقیقات ہونی چاہیئے۔