رسائی کے لنکس

امریکی انتخابات: صدر بائیڈن کی امید واری


Election 2024 Biden
Election 2024 Biden
  • ڈیموکریٹک پارٹی کی سرکردہ شخصیات امریکی صدر پر زور ڈال رہی ہیں کہ وہ اپنے دوبارہ انتخاب کی مہم سے دستبردار ہو جائیں۔
  • لیکن 81 سالہ بائیڈن نے اصرار کیا ہے کہ وہ 5 نومبر کے انتخابات میں’ڈیموکریٹک معیارات کے علم بردار" ہوں گے۔
  • ڈیمو کریٹ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ومبر کے انتخابات میں ان کے ہار جانے کا امکان، کانگریس کے کسی بھی ایوان کے کیلئے انکی پارٹی کی امیدوں کو متاثر کر سکتا ہے۔
  • مجموعی طور پر 20 ڈیموکریٹک قانون سازوں نے عوامی طور پر بائیڈن سے دوبارہ انتخاب کی کوشش ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔
  • زیادہ تر قومی پولز میں ٹرمپ کو بائیڈن پر 1 سے 3 فیصد پوائنٹس کی مسلسل برتری دکھائی گئی ہے۔۔

جو بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی کی سرکردہ شخصیات امریکی صدر پر زور ڈال رہی ہیں کہ وہ اپنے دوبارہ انتخاب کی مہم سے دستبردار ہو جائیں۔ حالیہ دنوں میں ان سے کہا گیا ہے کہ نومبر کے انتخابات میں ان کے جیتنے کے امکانات کم ہو رہے ہیں اور یہ کہ ہار جانے کا امکان، کانگریس کے کسی بھی ایوان کے حصول کیلئے انکی پارٹی کی امیدوں کو متاثر کر سکتا ہے۔

سابق صدر براک أوباما نے، جن کےساتھ بائیڈن نے آٹھ سال نائب صدر کے طور پر خدمات انجام دی تھیں، مبینہ طور پر سیاسی اتحادیوں کو بتایا ہے کہ بائیڈن کے جیتنے کا امکان کم ہو رہا ہے اور ان کے خیال میں بائیڈن کو اپنی امیدواری کے امکانات پر گہرائی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

بائیڈن سابق صدر اوباما کے ساتھ۔ فوٹو اے ایف پی
بائیڈن سابق صدر اوباما کے ساتھ۔ فوٹو اے ایف پی

لیکن 81 سالہ بائیڈن نے اصرار کیا ہے کہ وہ 5 نومبر کے انتخابات میں’ڈیموکریٹک اسٹینڈرڈ بیئرر‘(ڈیموکریٹک معیارات کے علم بردار) ہوں گے اور انہوں نے ایسا کوئی واضح اشارہ نہیں دیا کہ وہ ممکنہ طور پر نائب صدر کملا ہیرس کے حق میں دستبردار ہونے والے ہیں۔

بہر حال امریکی نیوز اکاؤنٹس کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں بعض اوقات وہ ساتھی ڈیموکریٹس کے ان خدشات کو سنتے رہے ہیں کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ان کی مہم کمزور پڑ رہی ہے۔

بائیڈن، جو اس وقت تیسری بار کوویڈ 19سےمقابلہ کر رہے ہیں، جمعرات کو بحر اوقیانوس کے قریب ڈیلاویئر کے ریہوبوتھ بیچ میں اپنے ویکیشن ہاؤس میں الگ تھلگ ہو گئے ہیں، اس دوران ان کا عوام کے سامنے آنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

ٹرمپ جمعرات کی شام کو بائیڈن کے خلاف دوبارہ انتخاب لڑنے کے لیے ریپبلکن صدارتی نامزدگی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔جنہوں نے انہیں 2020 میں شکست دی تھی۔

ایوان نمائندگان کے اقلیتی رہنما حکیم جیفریز اور سینیٹ کے اکثریتی رہنما چک شومر نے گزشتہ ہفتے بائیڈن کے ساتھ الگ الگ نجی ملاقاتوں میں انہیں بتایا کہ اگر وہ پارٹی کے صدارتی امیدوار کے طور پر برقرار رہتے ہیں تو ڈیموکریٹس کیلئے کانگریس کے کسی بھی ایوان میں کامیابی حاصل کرنا مشکل ہو گا۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان اینڈریو بیٹس نے ایک بیان میں کہا کہ بائیڈن نے دونوں ڈیموکریٹک قانون ساز رہنماؤں کو بتایا کہ "وہ پارٹی کے نامزد امیدوار ہیں، وہ جیتنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اورکارکن خاندانوں کی مدد سے متعلق اپنے 100 دن کے ایجنڈے کی منظوری کے لیے ان دونوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں۔"

میں صدارتی دوڑ کے لیے سب سے زیادہ اہل ہوں، بائیڈن
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:33 0:00

مجموعی طور پر 20 ڈیموکریٹک قانون سازوں نے عوامی طور پر بائیڈن سے دوبارہ انتخاب کی کوشش ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔ جب کہ بہت سے لوگوں نے نجی طور پر ان کی سیاسی قسمت کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔ کیلیفورنیا کے نمائندے ایڈم شیف نے، جو ٹرمپ پر سب سے زیادہ تنقید کرنے والوں میں سے ایک اور ایوان کی سابق اسپیکر نینسی پیلوسی کے قریبی اتحادی ہیں، اس ہفتے کے شروع میں بائیڈن سے مقابلے سے الگ ہو جانے کا مطالبہ کیا تھا۔

شیف نے ایک بیان میں کہا، "ٹرمپ کی دوسری صدارت ہماری جمہوریت کی بنیاد کو کمزور کر دے گی، اور مجھے اس بارے میں سنگین خدشات ہیں کہ آیا صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کو نومبر میں شکست دے سکتے ہیں۔"

حالیہ دنوں میں، ہالی ووڈ اداکار جارج کلونی نے، جنہوں نے گزشتہ ماہ بائیڈن کے لیے ایک شاندار فنڈ ریزر کی میزبانی کی تھی، ان سے اپنی مہم ختم کرنے کی اپیل کی، جب کہ بائیڈن کے اہم فنڈ ریزر جیفری کیٹزنبرگ نے اس ہفتے لاس ویگاس میں ہونے والی میٹنگ میں صدر کو متنبہ کیا کہ بڑے عطیہ دہنگان ان کی مہم کی فنڈنگ سے گریزاں ہیں۔

فی الواقع ہر ڈیموکریٹ جس نے بائیڈن سے اپنی مہم ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اس نے پچھلے مہینے ٹرمپ کے ساتھ ڈبیٹ میں میں ان کی لڑکھڑاتی کارکردگی کا حوالہ دیا ہے، جس میں بائیڈن تھکے ہوئے نظر آئے تھے، ان کے خیالات کا سلسلہ بے ربط تھا اور وہ ٹرمپ پر حملہ کرنے یا وائٹ ہاؤس میں اپنے ساڑھے تین سالہ دور کا دفاع کرنے میں مسلسل ناکام رہے تھے۔

امریکی انتخابات: پہلا صدارتی مباحثہ اور ووٹروں کا ردِ عمل
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:00 0:00

دستبرداری کے مطالبات کے باوجود، ان کی مہم کے نائب مینیجر، کوئنٹن فلکس نے جمعرات کو نامہ نگاروں کو بتایا، "ہماری مہم کسی ایسے منظرنامے کے ذریعے کام نہیں کر رہی ہے جہاں بائیڈن پارٹی کے ٹکٹ میں سرفہرست نہ ہوں۔" فلکس نے کہا کہ بائیڈن اگلے ماہ شکاگو میں ہونے والے اپنے قومی کنونشن میں پارٹی کی نامزدگی کو قبول کرنے کے منتظر ہیں۔

کنونشن میں کسی سیاسی محاذ آرائی سے گریز کرنے کیلئے،ڈیمو کریٹک پارٹی، ڈیلیگیٹس کے لیے یہ منصوبہ بنا رہی ہے کہ وہ بائیڈن کو اپنے صدارتی امیدوار کے طور پر اگست کے اوائل سے ووٹ دینا شروع کر دیں ،یعنی کنونشن میں باضابطہ نامزدگی سے دو ہفتے پہلے سے۔

لیکن اگر بائیڈن اس سے پہلے اپنی امیدواری ختم کر دیتے ہیں تو ہیرس کو مؤثر طریقے سے ڈیموکریٹک اسٹینڈرڈ بیئرر کے طور پرنامزد کیا جا سکتا ہے، یا ڈیموکریٹس ایک کھلا کنونشن منعقد کر سکتے ہیں اور متعدد امیدواروں میں سے کسی ایک کی نامزد گی کا انتخاب کر سکتے ہیں۔

زیادہ تر قومی پولز میں ٹرمپ کو بائیڈن پر 1 سے 3 فیصد پوائنٹس کی مسلسل برتری دکھائی گئی ہے۔۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ انتخابات میں میدان جنگ کی اہم ریاستوں میں اتنی ہی یا اس سے زیادہ کی سبقت ظاہر ہوتی ہے۔ دونوں امیدواروں کو اگلے سال جنوری سے شروع ہونے والی مزید چار سالہ مدت کے لیے صدارت کے حصول کے لیے ان کلیدی ریاستوں میں جیتنے کی ضرورت ہے۔

امریکی انتخابات: مباحثے میں بائیڈن کی کارکردگی کا اثر کیا رہا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:55 0:00

ڈیموکریٹس خاموشی سے پولنگ میں ہیریس اور ٹرمپ کے درمیان برابری کا جائزہ لے رہے ہیں ، نائب صدر ہمیشہ تو نہیں،لیکن کبھی کبھار بائیڈن سے بہتر، حتیٰ کہ ٹرمپ سے قدرے آگے ہوتی ہیں۔

امریکہ کے صدارتی انتخابات، کے بارے میں فیصلہ کرنے میں انتہائی معرکہ آرائی والی ریاستیں خاص طور پر اہم ہیں۔ جن کا تعین قومی پاپولر ووٹ سے نہیں ہوتا ہے۔

انتخابات بنیادی طور پر 50 ریاستی مقابلے ہوتے ہیں، جس میں جیتنے والا دو ریاستوں کے سوا تمام میں ریاست کے پورے الیکٹورل ووٹ حاصل کر لیتا ہے۔ وہ الیکٹورل ووٹ ریاستوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے مختص کیے جاتے ہیں۔

بائیڈن نے 2020 میں قومی سطح پر ٹرمپ کے مقابلے میں 70 لاکھ زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے لیکن انہوں نے چار ایسی ریاستوں میں جہاں مقابلہ سخت تھا مجموعی طور پر صرف 123,000 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اگر یہ ریاستیں دوسری طرف جاتیں تو ٹرمپ دوبارہ منتخب ہو چکے ہوتے۔

اس سال کے انتخابات میں بھی چند ریاستوں میں اسی طرح سخت مقابلہ ہونے کی توقع ہے جب کہ متوقع طور پر بائیڈن اور ٹرمپ دونوں کے ووٹوں کے بھاری فرق سے ان ریاستوں کو آسانی سے جیتنے کی توقع ہے جن کے لیے یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک پارٹی یا دوسری پارٹی کو ووٹ دیتی ہیں۔

بار بار یہ اصرار کرنے کے باوجود کہ وہ مقابلے میں شامل رہیں گے، بائیڈن نے تین ایسے منظرنامے پیش کیے ہیں جن میں وہ دستبردار ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ پولنگ کے بدترین نتائج انہیں دستبردار ہونے پر مجبور کر سکتے ہیں، اور ایک دوسرے موقع پر انہوں نے کہا کہ وہ اس صورت میں دستبردار ہو جائیں گے، "اگر میری کوئی میڈیکل کنڈیشن سامنے آئی، اگر کوئی، اگر ڈاکٹر میرے پاس آئے اور کہے، 'آپ کو یہ مسئلہ اور وہ مسئلہ ہے۔"۔

ایک اور موقع پر، بائیڈن نے، جو ایک عقیدت مند کیتھولک ہیں، اے بی سی نیوز کو بتایا کہ اگر خدا نے ان سے اپنی مہم ختم کرنے کو کہا تو وہ ختم کر دیں گے۔

فورم

XS
SM
MD
LG