مصر میں فوج نے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ کرفیوکی پابندی کرتے ہوئے جلسے جلوسوں سے گریز کریں۔
سرکاری ٹی وی پر ہفتہ کو جاری ہونے والے ایک اعلان میں کہا گیا ہے کہ ”مسلح افواج شہریوں سے اپیل کرتی ہیں کہ وہ ٹولیوں کی شکل میں اکٹھے نہ ہوں اور کرفیو کی پابندی کریں“۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ خلاف ورزی کرنے والوں کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اطلاعات کے مطابق مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے مرکزی طاہر چوک میں کئی ہزار مظاہرین جمع ہیں جن میں سے کچھ نے ہاتھوں میں مصری پرچم اٹھا رکھے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ صدر حسنی مبارک کے مستعفی ہونے تک وہ یہاں سے نہیں جائیں گے۔ فوج کی بکتر بند گاڑیاں بھی اس مقام پر تعینات ہیں۔ جبکہ پولیس نے مظاہرین کے قریب فائرنگ بھی کی ہے۔
صدر حسنی مبارک کے 30 سالہ اقتدار کے خلاف چار روز قبل شروع ہونے والے مظاہروں کو روکنے کے لے مصری رہنما نے جمعہ کو کابینہ کو برطر ف کرنے کے بعد کرفیو لگانے اور فوج کو سڑکوں پر گشت کرنے کا حکم دیاتھا۔ لیکن ایک روز قبل درجنوں افراد کی ہلاکت کے باوجود ہفتہ کو مظاہرین پھر سڑکوں پر نکل آئے اور اس عزم کا اظہار کیا کہ حسنی مبار ک کے اقتدار سے الگ ہونے تک مظاہروں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
دارالحکومت قاہرہ کے مرکزی چوک میں جمع ہونے والے لگ بھگ دو ہزار افراد کا کہنا تھا کہ وہ حکومت نہیں صدر کی برطرفی چاہتے ہیں ۔ جمعہ کومظاہروں کے دوران مشتعل افراد نے قاہرہ میں عمارتوں کو نذر آتش بھی کیا جن میں حکمران نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کا صدر دفتر بھی شامل ہے ۔ ہفتہ کی صبح بھی ان عمارتوں سے شعلے اٹھتے دکھائی دیے۔
عینی شاہدین نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے بتایا ہے کہ شمالی شہر اسکندریہ میں ہزاروں مظاہرین کو منتشرکرنے کے لیے پولیس نے فائرنگ اورآنسو گیس کے شیل پھینکے ہیں۔ جمعہ سے اب تک یہاں مرنے والوں کی تعداد بیس بتائی گئی ہے جبکہ بڑی مارکیٹوں کو لوٹنے کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ حکام نے قاہرہ،اسکندریہ اور سویز میں کرفیو میں توسیع کرتے ہوئے اس کا دورانیہ شام چار بجے سے صبح آٹھ بجے تک کردیا ہے۔
اگرچہ صدر حسنی مبارک نے پرتشدد مظاہروں کو ناقابل برداشت قرار دیا ہے اور اقتدار سے الگ ہونے کے مطالبات کو بھی رد کیا ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ اگر دباؤ میں آکروہ مذاکرات پر آمادہ ہوتے ہیں تو احتجاجی تحریک کی نمائندگی کون کرے گا۔