رسائی کے لنکس

عراق کے مرکزی بینک نے ڈالر نکلوانے پر پابندی لگا دی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

عراق کے مرکزی بینک کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ عراق یکم جنوری 2024 سے نقد رقم امریکی ڈالر میں لینا اوراس میں لین دین بند کر رہا ہے جس کا مقصد مالیاتی جرائم کے لیے مستحکم کرنسی ذخائر کے غلط استعمال اور ایران پر نافذامریکی پابندیوں سے بچنا ہے۔

عراقی مرکزی بینک (سی بی آئی) میں سرمایہ کاری اور ترسیلات کے ڈائریکٹر جنرل مازن احمد نے خبررساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا مقصد 10 ارب ڈالر میں سے تقریباً 50 فیصد کے اس غیر قانونی استعمال کو روکنا ہے جسے عراق ہر سال نیویارک فیڈرل ریزرو سے نقد رقم کے طور پر درآمد کرتا ہے۔

یہ اقدام ایک ایسی معیشت کی ڈالر سے توجہ کم کرنے کے وسیع تر دباؤ کا بھی حصہ ہے جس نے 2003 کے امریکی حملے کے بعد مقامی نوٹوں پر ڈالر کو ترجیح دی ہے۔

ڈائریکٹر جنرل مازن احمد نے کہا کہ جو لوگ 2023 کے اختتام سے پہلے بینکوں میں ڈالر جمع کرا ئیں گے وہ 2024 میں ڈالر میں رقوم نکال سکیں گے۔ لیکن 2024 میں جمع کرائے جانے والے ڈالر صرف سرکاری شرح پر 1320 کے حساب سے مقامی کرنسی میں ہی نکلوائے جا سکیں گے۔

عراقی دینار
عراقی دینار

ڈائریکٹر جنرل مازن احمدکہتے ہیں کہ ’’عراقی دینار کا مارکیٹ ریٹ جمعرات کو 1560 پر تھا جو سرکاری شرح سے تقریباً 15 فیصد کم ہے۔احمد کہتے ہیں کہ آپ رقم کی منتقلی چاہتے ہیں تو ضرور کریں۔ آپ کو ڈالرز والا کارڈ چاہیئے تو ضرور حاصل کریں۔ آپ عراق میں اس کارڈ کو مقامی کرنسی کی سرکاری شرح پر ہی استعمال کر سکیں گے اور اگر نقد رقم نکالنا چاہتے ہیں تو بھی آپ کو یہ مقامی کرنسی ہی میں دی جائے گی۔‘‘

عراق پہلے ہی وائر ٹرانسفرز کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم قائم کر چکاہے جو اس کی ڈالر کی طلب کے ایک بڑے حصے کی ترسیل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس سے پہلے جعلی رسیدوں اور جعلی لین دین کے لیے ایران اور شام کو ڈالر منتقل کیے جاتے تھے ۔ ان دونوں ممالک پر امریکی پابندیاں عائد ہیں ۔

احمد نے کہا کہ امریکہ میں حکام کے ساتھ مل کر یہ پلیٹ فارم قائم کیا گیا ہے جہاں تیل کی فروخت سے عراق کو حاصل ہونے والے 120 ارب ڈالر کے ذخائر رکھے گئے ہیں۔ اس نظام کے تحت اب کوئی غیر قانونی کام نہیں ہو سکتا ۔ احمد بتاتے ہیں کہ اب ان لوگوں کو سرکاری شرح پر ڈالر فراہم کیے جاتے ہیں جو خوراک کی درآمد اور صارفین کی ضروری اشیا جیسی جائز تجارت کرتے ہیں ۔

ڈائریکٹر جنرل مازن احمدکا کہنا ہے کہ نقد رقم نکالنے کا غلط استعمال جاری ہے۔ اس میں سفر کرنے والوں کو 3000 ڈالر کا ریاستی کوٹہ فراہم کیاجاتا ہے جس کے غلط استعمال کی اطلاعات ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عراق واشنگٹن کی خیر سگالی پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے اور ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ تیل کی آمدنی اور مالیات کو امریکی تنقید کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔

اس کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت نے یہ احتیاط برتی ہے کہ تہران کو الگ تھلگ نہ کیا جائے اور نہ ہی عراق کی بے ضابطہ معیشت میں گہری دلچسپی رکھنے والی جماعتوں اور مسلح گروہوں کو ناراض کیا جائے۔ عراق کی موجودہ حکومت کو طاقتور جماعتوں اور ایران کے قریبی مسلح دھڑوں کی حمایت حاصل ہے۔

ڈالر کا فقدان

بغداد میں عراق کا مرکزی بینک
بغداد میں عراق کا مرکزی بینک

متعدد مقامی بینک پچھلے مہینوں میں پہلے ہی سے نقد ڈالر نکالنے کی حد مقرر کر رہے ہیں جس سے ڈالر کی کمی میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں مارکیٹ کی شرح تبادلہ میں مسلسل اضافہ دیکھاجا رہا ہے۔

احمد کہتے ہیں کہ کچھ بینکوں کے پاس ڈالر وں کی کمی تھی کیونکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایک ہی وقت میں ڈالر نکالنے کی کوشش کر رہی تھی کیونکہ مالیاتی نظام کے بارے میں بے چینی کا احساس پیدا ہو رہا تھا۔ پھر کچھ بینکوں کے پاس یہ کمی اس وجہ سے ہوئی کہ وہ ڈالر کی بنیاد پر قرضے فراہم کرتے تھے لیکن ان قرضوں کی واپسی دیناروں میں ہوتی تھی ۔انہوں نے کہا کہ عراق کے مرکزی بینک سی بی آئی نے نقد رقم کی ادائیگی کی حد مقرر کر دی ہے جو فیڈ رل ریزو کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت کی گئی ہے۔

احمد نے کہا کہ سی بی آئی کو توقع ہے کہ نئے اقدامات کے نقاذ سے دینار کی قدر میں مزید کمی آئے گی۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ مالیاتی نظام کو باضابطہ بنانے کا ایک قابل قبول ضمنی اثر ہے اور سی بی آئی تمام جائز مقاصد کے لیے سرکاری شرح پر ڈالر فراہم کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ آج ہم جو کر رہے ہیں وہ اس مقصد کےحصول کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے۔

مازن احمد کا کہنا ہے کہ ’’ ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ ڈالر کا ایکسچینج ریٹ 1700 دینار تک پہنچ جائے ۔‘‘ اگر وہ مجھے بتاتے ہیں کہ یہ شرح 1700 ہے تو میں ان سے یہ کہتا ہوں کہ ’’ آپ ایران سے درآمد کرنا چاہتے ہیں، آپ اسمگل کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کے پاس بد عنوانی سے حاصل کیا ہوا پیسہ ہے جو آپ باہر بھیجنے کے خواہاں ہیں ۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’ اگر آپ کے مالیاتی اقدام شفاف اور قانونی دائرہ کار میں ہیں تو پھر کوئی اور بات اہم نہیں ہے۔ لیکن حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ مرکزی بینک کے اقدام کو خوشدلی سے قبول نہیں کیا جائے گا۔

سوشل میڈیا پر جمعرات کے روز سے ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بغداد کے ایک بینک میں رقم جمع کرانے والا شخص یہ دھمکی دے رہا ہے کہ اگر اس کی رقم کو ڈالر میں کیش نہیں کیا گیا تو وہ بینک کو آگ لگا دے گا۔ یہ لبنان میں پیش آئے ان واقعات کی یاد دہانی ہے جو وہاں بینکنگ بحران کے دوران پیش آئے تھے۔

فورم

XS
SM
MD
LG