رسائی کے لنکس

وائرل ویڈیو بنانے والے نوجوان کا مبینہ قتل، پیپلزپارٹی کے رُکن اسمبلی کے خلاف مقدمہ درج


پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں مبینہ طور پر وائرل ویڈیو بنانے کی پاداش میں قتل ہونے والے ناظم جوکھیو کا مقدمہ حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کے رُکن اسمبلی جام اویس اور اُن کے ملازمین کے خلاف درج کر لیا گیا ہے۔

سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ مقتول کے لواحقین کو انصاف ملے گا اور اس ضمن میں کوئی دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا۔

ناظم جوکھیو کی تشدد زدہ لاش بدھ کو جام اویس کے ڈیرے کے باہر سے ملی تھی جس کے بعد لواحقین نے لاش سڑک پر رکھ کر قومی شاہراہ پر احتجاج شروع کر دیا تھا۔

ناظم کے اہلِ خانہ کا الزام ہے کہ اُنہوں نے اپنے قاتلوں کا پہلے ہی بتا دیا تھا اور ایم پی اے اویس گہرام نے اپنے ساتھیوں کو ناظم کو مارنے کا حکم دیا تھا۔

وائس آف امریکہ نے اویس گہرام اور اُن کے وکیل سے اس حوالے سے مؤقف جاننے کی کوشش کی، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

سوشل میڈیا پر اس وقت وہ ویڈیو وائرل ہے جس میں کراچی کے ضلع ملیر کی یوسی گگر کا رہائشی ناظم جوکھیو ایک عرب ریاست کی نمبر پلیٹ والی لینڈ کروزر گاڑی دکھا رہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ لوگ ہمارے علاقے میں آ کر غیر قانونی شکار کر رہے ہیں۔

ویڈیو میں گاڑی میں سوار شخص اور گاڑی کی نمبر پلیٹ واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔ ویڈیو کے آخر میں نظر آنے والا شخص ہاتھ مار کر ناظم سے کیمرہ چھیننے کی کوشش بھی کرتا ہے۔

ناظم جوکھیو نے یہ ویڈیو فیس بک پر جاری کر دی جس کے بعد ایک بیان میں اُنہوں نے بتایا کہ اب اُنہیں دھمکی آمیز فون کالز آ رہی ہیں اور ایم پی اے جام اویس نے اُنہیں اپنے ڈیرے پر بلایا ہے۔ لہذٰا اگر اُنہیں کوئی نقصان پہنچا تو اس کے ذمے دار وہی لوگ ہیں جو ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔

ناظم جوکھیو نے اپنے مبینہ قتل سے خدشات کا اظہار کیا تھا۔
ناظم جوکھیو نے اپنے مبینہ قتل سے خدشات کا اظہار کیا تھا۔

ناظم جوکھیو کے مبینہ قتل کے بعد ان کے اہلِ خانہ نے نیشنل ہائی وے پر احتجاج شروع کر دیا جس کے باعث ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ بعد ازاں حکومتی یقین دہانیوں پر سڑک کو کھول دیا گیا۔

'تمہارا بھائی کیا کر رہا ہے اسے لے کر آؤ'

ناظم جوکھیو کے کزن عمران جوکھیو نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے علاقہ میں تلور کے شکار کے لیے اکثر عرب شخصیات آتی رہتی ہیں۔ جس روز یہ واقعہ ہوا اس روز بھی کچھ لوگ یہاں موجود تھے اور انہوں نے راستہ بند کر رکھا تھا جس پر ناظم نے ان کی ویڈیو بنائی اور فیس بک پر اپ لوڈ کر دی۔

عمران جوکھیو کا کہنا تھا کہ اس ویڈیو میں واضح طور پر دبئی کی نمبر پلیٹ نظر آ رہی ہے اور گاڑی سے اترنے والے شخص نے زبردستی موبائل چھیننے کی کوشش بھی کی، ناظم نے 15 پر کال بھی کی لیکن کوئی پولیس اہل کار نہ آیا جس کے بعد تھانے میں مقدمے کے اندراج کے لیے درخواست دی لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

اُن کے بقول اس واقعہ کے بعد ایم پی اے اویس گہرام نے ناظم کے بھائی افضل جوکھیو کو فون کیا اور کہا کہ تمہارا بھائی کیا کر رہا ہے اسے لے کر آؤ۔

عمران کے مطابق وہ ناظم کو ساتھ لے کر گیا جہاں جام اویس نے عرب مہمانوں سے معافی مانگنے کے لیے کہا جس پر ناظم نے کہا کہ یہ ہمارا علاقہ ہے اور اس میں ایسے شکار کرنا درست نہیں جس پر اویس گہرام نے اپنے گارڈز کو ناظم پر تشدد کرنے کے لیے کہا۔

افضل جوکھیو کی درخواست پر اسے کہا گیا کہ تم جاؤ اور کل اپنے ماموں کو ساتھ لے کر آنا، اس پر صبح بات ہو گی اور اگلی صبح پتا چلا کہ ناظم ہلاک ہو چکا ہے۔

عمران نے الزام لگایا کہ ایم پی اے اویس گہرام نے اپنے گارڈز کے ذریعے ناظم کو قتل کروایا اور اس کے بعد لاش بھی نہیں دے رہے تھے، بعد میں تحریکِ انصاف کے رکن اسمبلی حلیم عادل شیخ کی مداخلت پر لاش ملی اور اس کا پوسٹ مارٹم کرایا گیا جس میں تشدد ثابت ہوا ہے۔

سندھ حکومت کا مؤقف

سندھ حکومت نے اس بارے میں تحقیقات کروانے کا اعلان کیا ہے۔ حکومتی وزیر سعید غنی کا کہنا ہے کہ اس سانحہ کے بارے میں افسوس ناک اطلاعات آئی ہیں اور وزیراعلیٰ نے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔

پولیس کے ایس ایس پی عرفان بہادر کا کہنا ہے کہ ناظم جوکھیو کے بھائی کی مدعیت میں نامزد ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور کیس کی تحقیقات جاری ہیں۔

سوشل میڈیا پر جسٹس فار ناظم کی مہم

سوشل میڈیا پر اس وقت جسٹس فار ناظم کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے جس میں سماجی کارکن اور دیگر صارفین ناظم کو انصاف دینے کے مطالبات کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ناظم جوکھیو کے ساتھ چھینا جھپٹی کی ویڈیوز اور اُن کے بیان کی ویڈیوز بھی شیئر کی جا رہی ہے۔

اندراجِ مقدمہ سے قبل پولیس کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مذکورہ علاقہ میں دو گروہوں میں تصادم کے نتیجے میں ایک شخص ڈنڈے لگنے سے ہلاک ہو گیا۔ تاہم بعد میں پولیس نے اپنا یہ بیان واپس لے لیا تھا۔

اس معاملے پر حکومتی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی شدید تنقید کا سامنا ہے۔ بعض صارفین جام اویس کی عدم گرفتاری کو سیاسی دباؤ کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔

صحافی مرتضیٰ سولنگی نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو شئیر کی جس میں ناظم جوکھیو کی والدہ سڑک پر بیٹھی اس قتل پر احتجاج کر رہی ہیں۔ مرتضیٰ نے لکھا کہ بیٹے کے قتل پر اس ماں کی دہائیاں عرش کو ہلا دیں گی۔

سماجی کارکن جبران ناصر نے بھی ناظم جوکھیو کی ویڈیو شئیر کی جس میں ناظم دبئی نمبر پلیٹ کی گاڑی کے سوار سے الجھ رہا تھا۔ جبران ناصر کا کہنا تھا کہ ناظم جوکھیو کو یہ ویڈیو بنانے کی وجہ سے تشدد کے بعد قتل کیا گیا۔

صحافی فہیمدہ ریاض نے ٹوئٹ کیا کہ کیا اپنے دیس میں یہ لوگ لاوارث ہیں، ان کی کون سنے گا کون انصاف دے گا۔

XS
SM
MD
LG