امریکہ کی فوج میں اہم ترین قرار دی جانے والی ’اسپیشل آپریشن فورسز‘ میں خدمات انجام دینے والی خواتین اہلکاروں کو بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک، جنسی ہراسانی اور جنسی امتیاز کا سامنا ہے۔
فوج کی اسپیشل آپریشنز کمانڈ نے خواتین اہلکاروں کے حوالے سے 2021 میں کی گئی ایک تحقیقی رپورٹ پیر کو جاری کی ہے۔ اس رپورٹ کے مندرجات کے مطابق اسپیشل آپریشنز فورسز میں اب بھی خواتین اہلکاروں کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے جب کہ صنف کی بنیاد پر رکاوٹوں کی وجہ سے اب بھی انہیں اسپیشل آپریشنز انجام دینے والے مرد اہلکاروں کی مساوی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خواتین اہلکاروں کے لیے باڈی آرمر، ہیلمٹ اور دیگر ساز و سامان بھی ان کی جسامت کی مناسبت سے فراہم نہیں کیا جاتا۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق امریکہ کی فوج کی اسپیشل آپریشن فورسز کی خواتین اہلکاروں کے حوالے سے رپورٹ کی تیاری کے لیے لگ بھگ پانچ ہزار افراد کے انٹرویوز کیے گئے تھے جن میں اسپیشل آپریشن فورسز کی 837 خواتین اہلکار جب کہ 3238 مرد اہلکار شامل تھے۔اس کے علاوہ محکمۂ دفاع کے دیگر حکام کے انٹرویوز بھی کیے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوج کے سینئر نان کمیشنڈ اور جونیئر افسران خواتین اہلکاروں کے حوالے سے واضح جنسی یا نفرت پر مبنی رائے رکھتے ہیں۔ جس کی رپورٹ میں بعض اعلیٰ حکام نے بھی تصدیق کی ہے۔ البتہ ان کی شناخت مخفی رکھی گئی ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسپیشل آپریشن فورسز میں خدمات انجام دینے والی لگ بھگ سب ہی خواتین اہلکاروں کو مناسب باڈی آرمر یا جسم کی حفاظت کرنے والے حفاظتی آلات دستیاب نہیں ہیں۔
اہم مثالیں باڈی آرمر، ہیلمٹ اور" rucksacks" ہیں جو بڑے سائز کے ایسے بیک پیک ہیں جن میں سامان رکھنے کے لیے متعدد خانے ہوتے ہیں۔ اور یہ اہم ساز و سامان اکثر خاتون فوجیوں اور چھوٹے قد والے مردوں کے لیے بہت بڑا ہوتا ہے۔
فوج کئی سالوں سے باڈی آرمر کے مسائل کو حل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، اور دو سال قبل اس نے خواتین کے لئے بہتر فٹ ہونے والی حفاظتی جیکٹس اور جنگ میں پہننے والی قمیضیں تقسیم کرنا شروع کی ہیں۔
خواتین اہلکاروں کی جانب سے کئی برس سے یہ حفاظتی ساز و سامان فراہم کرنے پر زور دیا جاتا رہا ہے لیکن عدم فراہمی پر انہوں نے عام مارکیٹ سے اپنے جسم کی مناسبت سے یہ آلات خرید لیے ہیں۔
اس حوالے سے امریکی فوج کی اسپیشل آپریشن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل جوناتھن بریگا کا اسپیشل آپریشن میں خواتین اہلکاروں کی موجودگی کے حوالے سے کہنا تھا کہ یہ صرف اچھا نہیں ہے کہ وہ شامل ہیں بلکہ یہ ضروری ہے کہ وہ موجود ہوں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر امریکہ کی حفاظت ممکن بنانی ہے اور جن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو قوم کے دفاع کے لیے سب کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے بقول صرف فوج میں ہی نہیں بلکہ ہر سطح پر خواتین کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ہمارے اہداف کے لیے بھی اہم ہے۔
’اے پی‘ کے مطابق 2015 میں اس وقت کے سیکریٹری ڈیفنس ایش کارٹر نے احکامات جاری کیے تھے کہ تمام اسپیشل آپریشن فورسز میں خواتین اہلکار بھی جنگی خدمات انجام دینے کی اہل ہیں۔
اس فیصلے کے لگ بھگ آٹھ برس بعد اب پیر کو سامنے آنے والی مطالعاتی رپورٹ میں کئی مسائل کی نشان دہی کی گئی ہے جس پر لیفٹننٹ جنرل جوناتھن بریگا نے مایوسی بھی ظاہر کی۔
اس رپورٹ میں اسپیشل آپریشن کمانڈ کو دی جانے والی متعدد تجاویز اور ان پر عمل در آمد کا بھی ذکر ہے۔
رواں برس ہی امریکہ کے گورنمنٹ اکاؤنٹبیلیٹی آفس نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اسپیشل آپریشن فورسز میں دس فی صد سے بھی کم خواتین ہیں۔
اسپیشل آپریشن فورسز میں خواتین اہلکاروں سے متعلق سامنے آنے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 40 فی صد خواتین اہلکار سمجھتی ہیں کہ انہیں ڈیوٹی کے دوران صنف کی بنیاد پر امتیاز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
سروے میں اسپیشل آپریشن فورسز کے مرد اہلکاروں نےصنف کی بنیاد پر اپنی رائے ظاہر کی۔ اس میں عام رائے یہی تھی کہ خواتین کی اسپیشل آپریشن ٹیم میں کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔
امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کے مطابق ایک سینئر نان کمیشنڈ افسر نے رپورٹ کے حوالے سے کیے گئے سروے کے دوران کہا کہ وہ خواتین جو اسپیشل آپریشن یونٹس میں جاتی ہیں انہیں شوہر یا بوائے فرینڈ کی تلاش ہوتی ہے یا پھر ان کو توجہ کے حصول کی خواہش ہوتی ہے۔
اسی طرح ایک اور مرد اہلکار نے کہا کہ انہیں خوف ہوتا ہے کہ کسی اسپیشل آپریشن میں کوئی خاتون اہلکار نہ آجائے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ جب بھی ایسا ہوا تو وہ فوج کی خدمات سے ریٹائرڈ ہو چکے ہوں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین اہلکاروں نے سروے میں تسلیم کیا کہ انہیں اور دیگر خواتین اسپیشل آپریشن فورسز اور اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دینے کے لیے درکار پیشہ ورانہ معیار پر پورا اترنا ہوگا۔ان خواتین کی قطعأ یہ خواہش نہیں ہے کہ ان کے لیے پیشہ ورانہ معیار میں کمی کی جائے یا انہیں صرف صنف کی بنیاد پر ایسے عہدوں پر مقرر کیا جائے۔
رپورٹ کے مطابق دوسری جانب لگ بھگ نصف مرد اہلکاروں کی رائے ہے کہ خواتین اہلکاروں کے لیے معیار کو کم کیا گیا ہے۔
خواتین اہلکاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں روزانہ اپنی اہلیت اور قابلیت ثابت کرنا پڑتی ہے جب کہ ان کے مرد ساتھی اہلکاروں کو اس صورتِ حال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
سروے میں ہر تین میں سے ایک خاتون اہلکار نے جنسی ہراسانی کو ایک مسئلہ قرار دیا ہے۔
اس رپورٹ میں سامنے آیا کہ جنسی ہراسانی کے خلاف شکایات کا اندراج انتہائی کم ہے کیوں کہ، خواتین اہلکاروں کو یہ خوف ہوتا ہے کہ جنسی ہراسانی کی شکایت کے اندراج سے انہیں انتقامی اقدامات، فورسز سے برطرفی یا پھر کریئر کے خاتمے کا سامنا ہو سکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین واضح طور پر جنسی ہراسانی کے واقعات کے خلاف شکایات نہیں کر رہیں۔
دوسری جانب مرد اہلکاروں کا بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے یونٹ کی خواتین اہلکاروں سے بات کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہتے ہیں یا انہیں خوف ہوتا ہے کہ ان پر جنسی حملے، ہراسانی یا نامناسب تعلقات کا الزام عائد نہ کر دیا جائے۔
اس کے ساتھ کئی مرد اہلکاروں نے اس پریشانی کا بھی اظہار کیا کہ کسی خاتون اہلکار کے قریب کام کرنے سے ان کی اہلیہ کی جانب سے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین اہلکاروں میں سے 57 فی صد نے اسپیشل آپریشن فورسز میں ماحول کو روائتی فوج سے بہتر قرار دیا جب کہ لگ بھگ 72 فی صد خواتین اہلکاروں کے مطابق وہ اپنی بیٹیوں کی اس فورس میں آنے کے فیصلے کی حمایت کریں گی۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔
فورم