تیس سالہ شہروز نے 11 ستمبر 2012ء کو معمول کے مطابق ڈیوٹی پر جانے سے قبل بہن کو فیکٹری کے گیٹ پر چھوڑا تھا جہاں وہ پیکنگ ڈپارٹمنٹ میں کام کرتی تھی۔
دونوں بہن بھائیوں کی مشترکہ آمدن سے گھر کا خرچہ جیسے تیسے نکل ہی آتا تھا۔ لیکن شہروز کو معلوم نہ تھا کہ وہ اپنی پیاری بہن کو آخری بار فیکٹری چھوڑنے جارہا ہے۔
اسی شام کراچی کی 'علی انٹرپرائز' میں لگنے والی آگ میں صائمہ سمیت 250 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔
کراچی میں پیش آنے والے اس اندوہ ناک سانحے کے پانچ سال مکمل ہونے پر متاثرین کے غم ایک بار پھر تازہ ہوگئے ہیں۔ لوگ آج بھی سانحے کے پیچھے چھپی کہانی اور اس کے کرداروں سے لاعلم ہیں۔
میرے اس سوال پر کہ کیا انصاف ملنے کی کوئی امید ہے، شہروز جھنجھلا کر مجھ ہی سے سوال کرنے لگا، "کیا اتنے برسوں بعد بےنظیر بھٹو کو انصاف مل گیا؟"
سرکار کی جانب سے اس واقعے کو ملکی صنعتی تاریخ کا بدترین سانحہ قرار دے کر پہلے فیکٹری مالکان کے خلاف قتل بالخطا کی دفعات کے تحت مقدمہ سیشن عدالت میں چلایا جاتا رہا۔
لیکن پھر معلوم ہوا کہ آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی۔ تفتیش کاروں کے مطابق آگ لگانے کی وجہ فیکٹری مالکان کی جانب سے 35 کروڑ روپے بھتہ دینے سے انکار تھا۔
پھر اس نئے انکشاف کی روشنی میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی گئی جس نے اس انکشاف پر اپنی مہرِ تصدیق ثبت کردی کہ فیکٹری کو آگ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لگائی گئی تھی۔
اب یہ مقدمہ لگ بھگ 10 ماہ سے انسدادِ دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں ہے اور کیس کے دو مرکزی ملزمان عبدالرحمان عرف بھولا اور زبیر عرف چریا کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
مقدمے میں نامزد ایک ملزم عبدالرحمان عرف بھولا کو دسمبر 2016ء میں بینکاک سے گرفتار کرکے پاکستان لایا گیا تھا۔
عبدالرحمان عرف بھولا نے مقدمے کی سماعت کے دوران مجسٹریٹ کے سامنے بیان میں اپنے جرم کا اقرار اور اس پر پشیمانی کا اظہار بھی کیاتھا۔
لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ بلکہ رحمان عرف بھولا نے اپنے بیان میں اس واقعے میں سابق صوبائی وزیر اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رکنِ سندھ اسمبلی رؤف صدیقی کے ملوث ہونے کا بھی الزام عائد کیا جسے رؤف صدیقی رد کرچکے ہیں۔
مقدمے کا ایک اور اہم ملزم حماد صدیقی اب تک قانون کی گرفت سے دور ہے۔ حماد صدیقی بھی ایم کیو ایم کاسابق رہنما ہے اور عدالت اس کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرچکی ہے۔
لیکن ایک جانب جہاں مرکزی ملزم قانون کی گرفت سے آزاد ہے، وہیں گرفتار ملزمان کے خلاف بھی مقدمہ انتہائی سست روی کا شکار ہے اور اب تک ملزمان پر فردِ جرم بھی عائد نہیں کی جاسکی ہے۔
مقدمے کی حساسیت اور گرفتار ملزمان کی سیکورٹی کے پیش نظر مقدمہ سینٹرل جیل کراچی ہی میں چلایا جارہا ہے۔
بدترین "صنعتی حادثے" سے "مجرمانہ سازش" تک ہونے والی یوٹرن تحقیقات کا ابھی عدالت میں ثابت ہونا باقی ہے۔
لیکن پانچ سال بعد بھی کیس ابتدائی مراحل ہی میں ہے۔ اگرچہ اس بارے میں سرکار کے وکلا کا کہنا ہے کہ اب کیس "ٹھیک سمت" میں چل پڑا ہے لیکن واقعے میں ملوث کرداروں کو سزا ملنے کے خواب کی تعبیت اب بھی کوسوں دور ہے۔
کراچی کے ایک نامور وکیل محمد فاروق کہتے ہیں کہ یہ مقدمہ عدالتی نظام کے لیے ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتا ہے جسے جتنا جلد ہوسکے نمٹانا چاہیے۔
لیکن ان کے بقول اس مقدمے میں انصاف کے تمام تر تقاضے پورے کرنا بھی ضروری ہیں تاکہ ملزمان کو صفائی کا موقع ملے اور حقیقی مجرموں کا تعین بھی ہوسکے۔
ماہرین کے مطابق انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کے تحت تو ایسے مقدمات کا فیصلہ سات روز میں ہوجانا چاہیے لیکن کئی وجوہات کی بنا پر ایسا ممکن نہیں ہوپاتا۔
ماہرین کے بقول قوانین میں تبدیلی، عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے اور اس کے ساتھ تفتیش کے معیار کو بہتر بنائے بغیر مجرموں کو فوری سزائیں دلانا ایک خواب ہے۔
اہم قانونی اصلاحات کے نفاذ اور اس بدترین سانحے کے پیچھے چھپے لوگوں کو بے نقاب کرنے کے لیے سیاسی قوت ارادی بھی ضروری ہے جس کے بغیر یہ کام ادھورے ہی رہیں گے۔ اور اس وقت تک ہر برسی پر سانحہ بلدیہ کے متاثرین کے پاس آنکھوں میں آنسو لیے اپنے پیاروں کو یاد کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔