کراچی میں مبینہ طور پر زہریلا کھانا کھانے سے پانچ معصوم بچے ہلاک ہو گئے جبکہ والدین کی حالت بھی غیر بتائی جاتی ہے۔ متاثرہ فیملی کے رشتے داروں نے الزام لگایا ہے کہ ایک نجی ریسٹورنٹ سے کھانا کھانے کے بعد بچوں کی حالت خراب ہوئی تھی جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ بچوں کی موت کا تعین کیا جانا ابھی باقی ہے۔
پولیس کے مطابق متاثرہ خاندان کوئٹہ سے کراچی آیا ہوا تھا اور صدر میں سرکاری گیسٹ ہاؤس قصر ناز میں مقیم تھا۔ پولیس کو متاثرہ خاندان کے ساتھ ٹھہری ہوئی ان کی پھوپھی نے بتایا کہ نجی ریسٹورینٹ سے رات کو کھانا منگوایا گیا تھا جسے کھانے کے بعد بچوں اور ان کی والدہ کی طبیعت خراب ہو گئی۔
پولیس کے مطابق حالت بگڑنے پر بچوں اور ان کی والدہ کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں بچے جانبر ثابت نہ ہو سکے، تاہم ڈاکٹرز 28 سالہ خاتون کی جان بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں ڈیڑھ سالہ عبدالعلی، چار سالہ عزیز فیصل، 6 سالہ عالیہ، سات سالہ توحید اور نو برس کی صلویٰ شامل ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے تمام بچے بہن بھائی تھے۔
نجی اسپتال آغا خان کے ترجمان نے کہا ہے کہ بچوں کو صبح کے وقت جب اسپتال لایا گیا تو وہ پانچوں ہلاک ہو چکے تھے جبکہ خاتون کی حالت انتہائی تشویش ناک ہے جس کی جان بچانے کی ڈاکٹرز سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔
صوبے میں کھانے کے معیار پر نظر رکھنے والے ادارے سندھ فوڈ اتھارٹی کے حکام فوری طور پر اس ہوٹل پہنچے جہاں سے کھانا منگوایا گیا تھا۔ ہوٹل میں موجود کھانے کی اشیاء کے نمونے لیبارٹری ٹیسٹ کے لئے بھیج دئیے گئے ہیں۔ جبکہ ہوٹل میں کام کرنے والے بعض افراد کو بھی حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
ڈائریکٹر سندھ فوڈ اتھارٹی امجد لغاری نے بتایا کہ ہوٹل میں صفائی ستھرائی کا انتظام تسلی بخش نہیں، تاہم کھانوں کے سیمپلز کی رپورٹ آنے کے بعد ہی کوئی بات وثوق سے کہی جا سکے گی۔
ادھر پولیس نے اس کمرے سے بھی کھانے کے بعض پیکٹس اور دیگر اشیاء حاصل کر لی ہیں جہاں متاثرہ خاندان ٹہرا ہوا تھا۔ جس کے بعد کمرے سیل کر دیا گیا ہے
کراچی میں چند ماہ قبل بھی ایسے ہی ایک ایسے ہی واقعے میں دو بچے ہلاک ہو گئے تھے۔ دونوں بچے نجی ریسٹورنٹس سے کھانا کھانے کے بعد گھر گئے تھے جہاں ان کی طبیعت خراب ہوئی اور پھر وہ اسپتال میں دم توڑ گئے۔
سندھ فوڈ اتھارٹی نے مذکورہ ریسٹورنٹ پر چھاپے کے دوران کھانے پینے کی برسوں پرانی زائد المیعاد اشیاء بھی برآمد کی تھیں جس پر ہوٹل مالکان کے خلاف کیس رجسٹرڈ کیا گیا۔ لیبارٹری رپورٹس نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ دونوں بچوں کی ہلاکت زائد المعیاد اور جراثیموں سے متاثرہ کھانا کھانے سے ہوئی تھی۔
صوبے میں سندھ فوڈ اتھارٹی 2017 میں قائم کی گئی تھی، تاہم ابھی اتھارٹی کے پاس فوڈ انسپکٹرز، لیبارٹریز اور مناسب انفراسٹرکچر موجود نہ ہونے کے باعث ادارہ کمزور تصور کیا جاتا ہے۔