فرانس کے صدر فرانسواں اولاند نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمر پوتن سے شام میں داعش اور دیگر شدت پسند گروہوں پر انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے پر اتفاق کیا ہے تاکہ ان پر بمباری کی کارروائیوں کو زیادہ مؤثر بنایا جا سکے۔
’’ہم اس بات پر معلومات کا تبادلہ کریں گے کہ کسے نشانہ بنانا ہے اور کسے نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ صرف دہشت گردوں اور داعش کو نشانہ بنایا جائے اور ان فورسز کو نشانہ نہ بنایا جائے جو دہشتگردی کے خلاف لڑ رہی ہیں۔‘‘
پوتن نے کہا کہ روس داعش کے ٹھکانوں کی شناخت کے لیے فرانس اور امریکہ کے ساتھ تعاون کا دائرہ بڑھانے کے لیے تیار ہے۔
اولاند داعش کے خلاف جارحانہ فورس کے قیام کی سفارتی کوششوں کے سلسلے میں ماسکو میں تھے۔ اس سے قبل وہ امریکہ، جرمنی، برطانیہ اور اٹلی کا دورہ کر چکے ہیں۔
اولاند اور پوتن نے اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف قریبی تعاون پر بات چیت کے علاوہ شام میں خانہ جنگی کے سیاسی حل پر بات کی۔
فرانس اور روس دونوں کو حال ہی میں دہشت گردی کے واقعات کا سامنا رہا ہے۔ داعش نے 13 نومبر کو پیرس میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں 130 افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ داعش نے 31 اکتوبر کو مصر کے جزیرہ نما سینا کی فضائی حدود میں روس کا ایک مسافر طیارہ گرانے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی جس میں سوار 224 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
پوتن نے جمعرات کو ہونے والی ملاقات سے قبل کہا تھا کہ روس فرانس کے ساتھ اپنے ’’مشترکہ دشمن‘‘ کے خلاف اتحاد قائم کرنے کے لیے تیار ہے۔
تاہم یوکرین کے مسئلے پر روس کے مغربی ممالک سے کشیدہ تعلقات اور مشرق وسطیٰ میں پالیسیوں پر اختلاف کے باعث دونوں رہنماؤں کے درمیان بات چیت تناؤ کا شکار رہی۔
روس کی شام میں موجودگی کے باعث فرانس اور روس میں تعاون پیچیدگی کا شکار ہونے کا امکان ہے کیونکہ روس اپنے حلیف صدر بشار الاسد کو بچانے کے لیے کارروائیاں کر رہا ہے۔
روس کا مؤقف ہے کہ شام میں اس کی فوجی مہم داعش کو نشانہ بنا رہی ہے مگر اس نے بہت سی کارروائیاں ان باغیوں کے خلاف کی ہیں جنہیں مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
پوتن نے جمعرات کو نامہ نگاروں سے کہا تھا کہ ’’اسد کی فوج دہشت گردوں سے لڑنے کے لیے قدرتی فورس ہے۔‘‘