مشرق وسطی میں امن و امان کی غیر یقینی صورت حال کا اثر امریکہ پر بھی پڑا ہے، جہاں تیل کی قیمت میں اضافے کے باعث لوگوں کی تشویش میں اضافہ ہورہاہے۔ تیل کی مہنگائی کوئی نئی بات نہیں۔ تیل کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالنے والے طوفانوں، تیل بردار جہازوں کے حادثوں یا تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تجارتی پابندیوں کی وجہ سے اس کی قیمت میں اضافہ پہلے بھی ہو چکا ہے۔ اور ایسے ہر موقع پر درآمد شدہ ایندھن پر امریکہ کے انحصار پر بحث بھی چھڑی ہے۔
تھامس والین کا تعلق انرجی انٹیلی جنس نامی ایک کمپنی سے ہے جو توانائی کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے ۔ ان کے مطابق اس بات کا علم بہت کم لوگوں کو ہے کہ صدر اوباما کی انتظامیہ نے توانائی کے نئے ذرائع پر تحقیق اور توانائی کی بچت کے لیے2009ءکےریکوری ایکٹ کے تحت تقریبا آٹھ ارب ڈالر مختص کیے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایک ایسے دور میں جب حکام اخراجات گھٹانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کفایت شعاری پر زور دیا جا رہا ہے۔ توانائی کے شعبے میں تیل کے متبادل ایندھن پر زور نہیں دیا جارہا۔ گو اس پر توجہ درکار ہے تاکہ لوگ بھی اس میں زیادہ دلچسپی لیں۔
لیکن 2009ءکےtریکوری ایکٹ کی مدت اب ختم ہو گئی ہے۔ اور امریکی ایوان نمائندگان میں حزب اختلاف کی رپبلکن پارٹی حکومت کے اخراجات کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
نیویارک میں واقع نیس ڈیک سٹاک مارکیٹ کے ایک نمائندے انوشرمااکہنا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ سیاسی مباحثے کا سبب بن سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک طرف تو آپ لوگوں کو تیل کے کنویں کھودنے کے علاوہ دوسرے شعبوں میں بھی تحقیق اور ترقی کے بارے میں بات کرتے سنیں گے۔ اور دوسرے طرف متبادل توانائی کا پورا شعبہ شمسی توانائی اور ہوا سے حاصل کی جانے والی توانائی کے حق میں کھڑا ہو جائے گا۔
لیکن ولیمز کہتے ہیں کہ تیل کی قیمت گھٹنے کے ساتھ ہی اس کا متبادل ڈھونڈنے کی مہم بھی ٹھنڈی پڑ جائے گی۔
یعنی اگر ماضی سے کوئی سبق لیا جائے تو وہ یہ ہے کہ درآمد کیے گئے تیل پر امریکہ کا انحصار اس وقت تک جاری رہ سکتا ہے جب تک کہ تیل کی قیمت میں مستقل اضافے کی وجہ سے اس ایندھن کا کوئی متبادل نہیں ڈھونڈ لیا جاتا۔