گزشتہ سال جبراً بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد چھ کروڑ 53 لاکھ تھی جو 2014 میں بے گھر افراد کی تعداد سے پچاس لاکھ زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین فلیپو گرینڈی نے کہا کہ جنگ اور ظلم و ستم کی وجہ سے زیادہ افراد بے گھر ہو رہے ہیں۔ جب کہ دنیا کے ممالک پناہ گزینوں پر اپنے دروازے بند کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’’ہر ایک منٹ میں 24 افراد بے گھر ہو رہے ہیں ۔۔۔ جبراً بے گھر ہونے والے افراد میں سے دو تہائی اپنے ملکوں کے اندر بے گھر ہوئے ۔۔۔ جبکہ جبراً بے گھر ہونے والے افراد میں سے 90 فیصد کا تعداد غریب یا درمیانی آمدن والے ممالک سے ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے 20 جون کو مہاجرین کے عالمی دن کے موقع پر اپنی سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے دو کروڑ 10 لاکھ پناہ گزینوں کا تعلق تین ممالک شام، افغانستان اور صومالیہ سے ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ مہاجرین کا 50 فیصد بچوں پر مشتمل ہے جن میں سے بہت سے بھاگنے کے دوران اپنے خاندانوں سے جدا ہو گئے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال 98 ہزار پناہ کی درخواستیں بچوں نے جمع کرائیں جن کے ساتھ کوئی بڑا موجود نہیں تھا۔ اس سے قبل اتنی تعداد میں بچوں نے کبھی پناہ کی درخواستیں جمع نہیں کرائیں۔
ہائی کمشنر گرینڈی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جبراً بے گھر ہونے والے افراد کی سب سے بڑی تعداد کا تعلق شام سے ہے مگر انہوں نے کہا کہ دیگر ملکوں سے بھی لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔
برونڈی میں کئی دہائیوں سے وقتاً فوقتاً جنگ جاری ہے مگر گزشتہ سال وہاں ملک کے اندر بے گھر ہونے والے اور دیگر ملکوں کی طرف پناہ کے لیے رخ کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
گرینڈی نے کہا ’’پھر جنوبی سوڈان جیسے بحران ہیں جو مختلف مراحل میں سے گزرے ہیں۔ بدقسمتی اس وقت ہم اس بحران میں اضافے کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ افغانستان کے لوگ ملک چھوڑ رہے ہیں۔ جو افغان طویل عرصے سے ایران میں پناہ گزینوں کے طور پر زندگی گزار رہے تھے وہ بھی ملک چھوڑ رہے ہیں۔‘‘
رپورٹ میں کہا گیا کہ دو کروڑ 36 لاکھ پناہ گزینوں اور ملک کے اندر بے گھر ہونے والے افراد کا تعلق مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے ہے اور ان علاقوں میں دنیا میں سب سے زیادہ افراد بے گھر ہو رہے ہیں۔
اس کے بعد صحارا کے ذیلی علاقوں کا نمبر ہے جہاں 2015 کے اواخر تک ایک کروڑ 84 لاکھ افراد بے گھر ہوئے یا انہوں نے دیگر ملکوں میں پناہ کے لیے ملک چھوڑا۔
اگرچہ یورپ کو سب سے زیاہ میڈیا کی توجہ حاصل ہے مگر رپورٹ کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں پناہ گزینوں کی سب سے کم تعداد موجود ہے۔