سلمیٰ خاتون کا 22 سالہ بیٹا کاشف کراچی کے ضلع کورنگی میں مہران ٹاون میں واقع بی ایم لگیج فیکٹری میں رواں سال اگست میں لگنے والی خوفناک آگ میں جل کر ہلاک ہوگیا تھا۔
سلمیٰ خاتون نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کے بیٹے سمیت فیکٹری میں آگ لگنے سے ہلاک ہونے والوں کو قتل کیا گیا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ان کے کیس میں پولیس نے قتل کی دفعات لگانے کے بجائے اقدام قتل کی دفعات عائد کیں جس پر لواحقین کو سمجھایا گیا کہ جن دفعات کے تحت کیس دائر کیا گیا ہے۔ اس میں فیکٹری مالکان سمیت دیگر ذمہ داروں کو سزائے موت نہیں ہو سکتی اور اس میں سب سے بہتر راستہ یہی ہے کہ مالکان کو فرار کا راستہ نہ دیا جائے اور انہیں کم از کم دیت کی رقم پر مجبور کیا جائے۔
سلمیٰ خاتون کا کہنا ہے کہ اس دیت کی رقم سے ان کا جوان بیٹا تو واپس نہیں آ سکتا۔ اُس کا غم اپنی جگہ ہمیشہ کے لیے ان کے ساتھ ہے۔ وہ اپنے بیٹے کے قاتلوں کو سزا تو نہیں دلا سکیں جس سے ان کو کچھ سکون ملتا البتہ وہ سب اس حقیقت کو بھی جانتے ہیں کہ ان کے پیارے اب واپس نہیں آئیں گے۔
سلمیٰ خاتون ان 16 متاثرہ خاندانوں میں شامل ہیں جن کے پیارے اس اندوہناک واقعے میں جل کر ہلاک ہوئے تھے۔
لواحقین کی جانب سے خون بہا کی رقم لینے پر رضا مندی کے بعد اس مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت نے گرفتار چھ ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
ان ملزمان میں پولیس نے برطانوی شہریت رکھنے والے فیکٹری مالک حسن میتھا، پلاٹ کے مالک فیصل طارق، مینیجر عمران زیدی، سپروائزر ظفر اور ریحان جب کہ چوکیدار کو بھی گرفتار کیا تھا۔
باقی سات ملزمان کی، جن کا تعلق مختلف حکومتی اداروں سے تھا، بھی ضمانت قبل از گرفتاری کی توثیق کر دی گئی ہے۔
’سرکار کو ان مقدمات میں ملزمان کو سزائیں دلانے میں دلچسپی نہیں‘
اگرچہ خون بہا ادا کرنے کے وعدے کے بعد ملزمان کی ضمانت ممکن ہو گئی ہے اور یہ اعتراض بھی کیا جا رہا ہے کہ اس طرح مالی لحاظ سے طاقت ور مالکان اور دیگر افراد کو سزا سے بچنے کے لیے استثنیٰ مل جائے گا۔
بعض ماہرینِ قانون کا یہ بھی خیال ہے کہ ایک جانب یہ ورثا کا قانونی حق ہے تو دوسری جانب ریاست کو ان ملزمان کے خلاف کیس چلانے اور انہیں مثالی سزائیں دلانے میں دیت اب بھی حائل نہیں۔
ملزمان پر اقدام قتل کے تحت مقدمہ اب بھی باقی ہے۔ قانونی ماہرین کے بقول اس میں کوئی شک نہیں کہ دیت ملنے کے بعد مقدمہ کمزور پڑ گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل شعاع النبی ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس طرح کے کیسز میں اکثر ملزمان سزاؤں سے بچ نکلتے ہیں۔ کیوں کہ مدعی پہلے ہی آوٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ پر راضی ہو جاتے ہیں اور سرکار کو ایسے کیسز میں ملزمان کو سزائیں دلانے میں کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے میں عدالت کا کیس کو منطقی انجام تک پہنچانا مشکل ہو جاتا ہے اور اکثر ملزمان چھوٹ نکلتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ ایسے مقدمات کو ٹیسٹ کیس بنا کر آئندہ کے لیے ایسے حادثات سے بچاؤ کو ممکن بنایا جائے۔ فیکٹری مالکان، ذمہ دار حکومتی اداروں کے اہلکاروں اور دیگر کو نشانِ عبرت بنایا جائے تاکہ قانون پر عمل درآمد یقینی ہو ورنہ سزائیں ملیں گی۔
’قوانین، ادارے تو موجود لیکن عمل درآمد صفر ہے‘
ملک میں مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’نیشنل ٹریڈ یونینز فیڈریشن‘ کے جنرل سیکریٹری ناصر منصور کا کہنا ہے کہ اس وقت مزدوروں کی حفاظت کو یقینی بنانے سمیت ان کے دیگر حقوق سے متعلق حالات انتہائی خراب ہیں۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں 259 مزدوروں کی ہلاکت ہو یا اس کے بعد پیش آنے والے واقعات، جن میں درجنوں مزدور حفاظتی انتظامات اور ہنگامی اخراج نہ ہونے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ اس کے باوجود ایسے واقعات کے تدارک کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے قوانین، ضوابط، عمل درآمد ممکن بنانے کے لیے مختلف ادارے اور عمل نہ کرنے پر سزائیں تجویز کرنے کے لیے عدالتی نظام سب موجود ہے البتہ حقیقت میں ان پر عمل درآمد صفر ہے جس کی وجہ سے مزدور لقمہ اجل بنتے رہتے ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔
’مؤثر حفاظتی انتظامات نہ ہونے پر کارروائی کی جاتی ہے‘
دوسری جانب صوبائی سیکریٹری برائے محنت و افراد قوت محمد لیئق احمد نے وائس آف امریکہ کی جانب سے رابطہ کرنے پر بتایا کہ محکمے کے انسپکٹرز اور ڈائریکٹوریٹ ایسی فیکٹریوں کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہیں جو خود کو رجسٹر نہیں کراتے۔
ان کا کہنا تھا کہ رجسٹرڈ کرانے کے لیے فیکٹری مالکان کو محکمے کی دی گئی بعض شرائط کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے جس میں حفاظتی انتظامات کو یقینی بنانا، ملازمین کی رجسٹریشن اور دیگر شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مزدوروں کی ہیلتھ سیفٹی سے متعلق قوانین بھی موجود ہیں جن پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کے خلاف جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے اور پھر بھی عمل نہ کرنے پر فیکٹری سیل بھی کی جاتی ہے۔
تاہم انہوں نے مہران ٹاؤن فیکٹری کا کیس عدالت میں زیرِ سماعت ہونے کی وجہ سے اس پر بات کرنے سے معذرت کی۔
انہوں نے بتایا کہ لیبر ڈپارٹمنٹ اس حوالے سے اپنی کارروائی پہلے ہی مکمل کر چکا ہے جس کی عدالت نے بھی توثیق کی۔
کیس میں پولیس کی تفتیش کیا کہتی ہے؟
ادھر پولیس کی جانب سے عدالت میں جمع کرائے گئے مقدمے کے چالان میں کہا گیا ہے کہ بی ایم لگیج فیکٹری کسی بھی متعلقہ سرکاری ادارے میں رجسٹرڈ نہیں ہے اور نہ ہی بی ایم لگیج فیکٹری کی کبھی انسپیکشن کی گئی۔ جب کہ فیکٹری میں کسی قسم کے آگ بجھانے کے آلات اور ہنگامی صورتِ حال سے بچنے کے لیے آلات وغیرہ نہیں تھے۔
چالان کے مطابق فیکٹری میں ایسی صورتِ حال سے نکلنے کے لیے کوئی ہنگامی اخراج اور نہ ہی ملازمین کی سیفٹی کو یقینی بنانے کے لیے کوئی اور اقدامات کیے گئے تھے۔ فیکٹری یونہی لاپروائی میں چلائی جاتی رہی جس کی وجہ سے 16 مزدوروں کی اموات ہوئیں۔
چالان میں مزید کہا گیا ہے کہ چوکیدار سید زرین خان ان تمام حالات سے واقف ہونے کے باوجود فیکٹری کو تالے لگا کر حادثے کے روز خود باہر کھڑا رہا اور لوگوں کو بھی اندر جانے سے روکے رکھا اور ساتھ ہی جھوٹ بولتا رہا کہ تالوں کی چابیاں اس کے پاس نہیں ہے۔
پولیس کے مطابق اسی طرح فیکٹری کے سپروائزر بھی اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ فیکٹری رہائشی علاقے میں غیر قانونی طور پر قائم ہے اور کسی بھی سرکاری ادارے میں رجسٹرڈ نہیں ہے۔
پولیس نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالسمیع کو فیکٹری کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہ کرنے اور فیکٹری کو چلنے دینے کے الزام میں کیس میں نامزد کیا گہا ہے۔
ادارہ ترقیات کراچی (کے ڈی اے) کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر، سول ڈیفنس کے ڈپٹی کنٹرولر اور دیگر حکومتی اداروں کے افسران کو بھی کیس میں نامزد کیا گیا تھا۔