ہانگ کانگ میں مظاہرین نے برطانیہ کے قونصل خانے کے باہر احتجاج میں برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ برطانیہ چین پر 22 سال قبل دونوں ممالک کے درمیان کیے گئے معاہدے پر عمل در آمد کے لیے دباؤ ڈالے۔
برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کی رپورٹ کے مطابق مظاہرین 1997 میں ہانگ کانگ کی چین کو حوالگی کے وقت شہریوں کے لیے طے کیے گئے حقوق اور آزادی دینے کے معاہدے پر عمل در آمد کا مطالبہ کر رہے تھے۔
مظاہرین احتجاج کے دوران برطانیہ کے جھنڈے بھی لہرا رہے تھے جبکہ بعض احتجاج کرنے والے برطانیہ کا ترانا بھی پڑھتے نظر آئے۔
واضح رہے کہ پولیس نے کسی بھی قسم کے احتجاج پر پابندی عائد کی ہوئی ہے تاہم مظاہرین مسلسل 15ویں ہفتے بھی اتوار کے روز احتجاج کرتے نظر آئے۔
احتجاج کے دوران وہ مکمل جمہوریت کے نفاذ کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔
چین پہلے ہی دیگر ممالک کو متنبہ کر چکا ہے کہ وہ ہانگ کانگ کے معاملے میں مداخلت نہ کرے کیونکہ یہ چین کا اندرونی معاملہ ہے۔
دوسری جانب برطانیہ کا موقف ہے کہ چین پر یہ قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ 'ایک ملک دو نظام' کے طے شدہ اصول پر عمل در آمد ممکن بنائے کیونکہ ہانگ کانگ کو بیجنگ کے حوالے کرتے ہوئے یہی طے ہوا تھا۔
برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کے مطابق ہانگ کانگ اب چین کا حصہ ہے تاہم 'ایک ملک دو نظام' کا معاہدہ اس خطے کو کافی حد تک خود مختاری دیتا ہے جبکہ یہاں کے شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی اور اجتماع کا حق حاصل ہے۔
مظاہرے کے دوران احتجاج کرنے والے 'ایک ملک دونظام کا معاہدہ مر چکا ہے' اور ہانگ کانگ کو آزادی دو کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے مظاہرین نے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپیل کی تھی کہ وہ ہانگ کانگ کو چین کے سے آزاد کروائیں۔
مظاہرین نے امریکہ کے قونصل خانے کی جانب مارچ کیا تھا۔ اس دوران ہزاروں مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے جن پر درج تھا کہ امریکہ ہانگ کانگ کے شہریوں کی مدد کرے۔
مظاہرین کی جانب سے امریکہ کے قونصل خانے کی جانب مارچ اور صدر ٹرمپ سے مدد مانگنے پر چین نے خبردار کیا تھا کہ بیجنگ ہانگ کانگ کو چین سے الگ کرنے کی کوشش برداشت نہیں کرے گا۔ چین اور ہانگ کانگ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔
چین کے سرکاری اخبار میں چینی حکام کے شائع ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ امریکی قونصل خانے کے باہر ہونے والے مظاہروں سے ثابت ہو گیا کہ ان کے پیچھے غیر ملکی قوتیں کارفرما ہیں۔
حکام نے مظاہرین کو بھی خبردار کیا تھا کہ حکومت کے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے۔
چین کے حکام اس سے قبل بھی یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ چین مخالف عالمی قوتیں ہانگ کانگ میں ہونے والے مظاہروں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔
یاد رہے کہ ہانگ کانگ میں رواں سال جون میں شروع ہونے والے حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں میں مسلسل شدت آ رہی ہے۔
یہ مظاہرے ہانگ کانگ کی حکومت کی جانب سے ملزمان کی چین حوالگی سے متعلق ایک قانونی بل متعارف کروانے پر شروع ہوئے تھے۔
اس بل کے تحت جرائم کے مرتکب افراد کا ٹرائل چین میں کرنے کی تجاویز شامل تھیں۔
ہانگ کانگ کے شہریوں نے مجوزہ بل کی مخالفت کرتے ہوئے احتجاج شروع کیا تھا۔ گو کہ حکومت نے بل واپس لے لیا تھا تاہم احتجاج کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔
مظاہرین نے مطالبات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران مظاہرین پر پولیس تشدد کی آزادانہ تحقیقات کروائی جائیں۔
مظاہرین کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ہانگ کانگ میں براہ راست نئے انتخابات کروائے جائیں جبکہ موجودہ چیف ایگزیکٹیو عہدے سے مستعفی ہوں۔
دوسری جانب چین کی مرکزی حکومت نے چیف ایگزیکٹیو ہانگ کانگ کیری لیم کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
تین ماہ سے جاری احتجاج کے دوران ہانگ کانگ میں تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔