کرونا وائرس کے باعث عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے۔ ایسے میں ماہرین اسے پاکستان جیسی معیشت کے لیے فائدہ مند قرار دے رہے ہیں۔
عالمی سطح پر تیل کی کھپت میں ریکارڈ کمی اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) کے مابین اختلافات تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کا باعث بن رہے ہیں۔
اس صورتِ حال میں اوپیک ممالک کی جانب سے مئی سے خام تیل کی پیداوار میں 10 ملین بیرل یومیہ کمی کے اعلان کے باوجود بھی قیمتوں میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔
اس تاریخی کمی میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ پاکستان جیسا ملک جو اپنی ضرورت کا 70 سے 80 فی صد تیل درآمد کرتا ہے۔ اس صورتِ حال سے کیسے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
پاکستان اپنی تیل کی درآمدات کا بڑا حصہ سعودی عرب سے درآمد کرتا ہے جس کا خام تیل عرب لائٹ کہلاتا ہے۔
اس کے علاوہ متحدہ عرب امارت اور کویت سے بھی تیل درآمد کیا جاتا ہے اور ان ممالک کی تیل درآمد کرنے والی کمپنیوں کے نرخ بھی عرب لائٹ کی قیمت کے آس پاس ہی ہوتے ہیں۔
ڈپٹی ڈائریکٹر ریسرچ عارف حبیب سیکیورٹیز طاہر عباس تیل کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایک سال کے دوران عرب لائٹ کی قیمت بھی 74.56 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر اس وقت 19 ڈالر فی بیرل تک جاپہنچی ہے۔ جو 1980 کی دہائی میں تیل کی قیمت تھی۔
اُن کے بقول گزشتہ سال کی اوسط قیمتوں کا موازنہ موجودہ قیمت سے کیا جائے تو یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان اپنے درآمدی بل میں تقریباً پانچ ارب ڈالرز تک کی بچت کرسکتا ہے۔
اس عمل سے جہاں زرِمبادلہ کے ذخائر محفوظ رہیں گے وہیں تجارتی خسارے میں کمی، مہنگائی میں اضافے کا عمل سست کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
طاہر عباس کے بقول تیل کی قیمتوں میں حیرت انگیز کمی سے پاکستان کی حکومت کو یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ محصولات جمع کرنے کے ٹارگٹ میں ہونے والے نقصان کا ازالہ کرسکے۔ جس میں اب تک 800 ارب روپے کی کمی کی توقع کی جا رہی ہے۔
اُن کے بقول اس کے ساتھ توانائی کے شعبے میں دی جانے والی سبسڈی کو بھی کم کیا جاسکے گا۔ اس طرح حکومت کی وہ بچت ترقیاتی کاموں کی رفتار بڑھانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق اس کمی کا سب سے بڑا فائدہ سیمنٹ، اسٹیل اور آٹو موبائل سیکٹرز کو ہو گا جب کہ نقصان آئل مارکیٹینگ کمپنیوں، ریفائنریز اور تیل کی تلاش کا کام کرنے والی کمپنیوں کو ہو گا۔ جن کے حصص کی قیمت اسٹاک مارکیٹ میں گر سکتی ہے۔
طاہر عباس کے بقول دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی تیل کی کھپت کم ہوئی ہے اور مزید ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی نہیں تو اس کم ہوتی ہوئی قیمت کا پورا فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔
پاکستان کتنا تیل ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟
ماہرین کے مطابق پاکستان میں خام تیل کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 40 سے 45 روز سے زائد کی نہیں۔
سال 2015 میں آنے والے پیٹرولیم بحران کے بعد بنائی گئی کمیٹی نے یہ تجویز دی تھی کہ ملک میں خام تیل کے ذخائر بڑھانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
خاص طور پر توانائی کے شعبے میں یہ ذخائر تین لاکھ ٹن ہونے چاہیے جو اس شعبے کی 20 روز کی ضروریات کے لیے کافی ہو گا۔
اس بنا پر آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی اسٹوریج چھ لاکھ میٹرک ٹن بڑھانے کے لیے کمپنیوں کو 40 سے زائد لائسنس جاری کیے ہیں۔
ماہر معیشت خرم شہزاد نے توقع ظاہر کی ہے کہ مئی کے مہینے کے لیے تیل کی قیمتوں میں پاکستان میں 15 سے 20 روپے فی لیٹر کمی متوقع ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال ہمارا توانائی پر تیل کا کل خرچہ 14 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھا جو تیل کی قیمتیں گرنے سے آٹھ ارب ڈالر کم ہو کر چھ ارب ڈالر تک رہنے کی توقع ہے۔
ان کے مطابق اگر ایک ارب ڈالر کا مطلب 160 ارب روپے کا بھی بنتا ہے تو اسکا آدھا فائدہ یا کم از 60 ارب بھی عوام کو منتقل کیا جائے تو اس سے مہنگائی کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ کرونا بحران کے پھیلاو سے قبل ہمیں عالمی طور پر ادائیگیوں میں رعایت نہیں مل رہی تھی، شرح سود نیچے لانے کا موقع نہیں تھا۔
لیکن کرونا بحران نے حکومت کو معاشی طور پر سنبھلنے کا ایک نادر موقع بھی دیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ تین سے چار ماہ میں جب کرونا سے پیدا شدہ صورتِ حال بہتر ہو گی تو پاکستان کی معیشت زیادہ تیزی سے بحال ہو سکتی ہے۔