پاکستان کی حکومت یہ کوشش کر رہی ہے کہ حسین حقانی کے خلاف مقدمات چلانے کے لیے انہیں انٹرول کے ذریعے ملک واپس لایا جائے۔ سوال یہ ہے کیا امریکہ کے لیے پاکستان کے سابق سفیر کو اس طریقے سے لایا جا سکتا ہے۔
بین الااقوامی قوانین کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے اگر انٹرپول میں یہ ثابت کر دیا کہ حسین حقانی مالی امور میں خردبرد کے مرتکب ہوئے ہیں تو انھیں امریکہ بدر کرایا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مالی بدعنوانیوں کے سلسلے میں یہ بین الااقوامی قانون کے مطابق مقررہ مدت کی کوئی قید نہیں۔
اسلام آباد میں ایف آئی اے مقدمات کے لئے قائم خصوصی عدالت نے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کئے ہیں۔
اسلام آباد کی خصوصی عدالت کی جج ارم نیازی کی عدالت میں حسین حقانی سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران ایف ائی اے نے رپورٹ پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ حسین حقانی نے امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے کے فنڈ سے سالانہ 20 لاکھ ڈالر خرد برد کئے اور جان بوجھ کر رپوش ہو گئے۔
عدالت نے ایف ائی اے کی جمع کرائی گئی رپورٹ پر حسین حقانی کےخلاف دائمی وارنٹ جاری کرتے ہوئے مقدمے کو داخل دفتر کر دیا تھا۔ رواں برس مارچ میں ایف ائی اے نے سابق سفیر پر فنڈ میں خردبرد اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات عائد کئے تھے اور سیکشن 3، 4، 409، 420 اور 109 کے تحت مقدمات درج کرائے تھے۔
وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد ایف ائی اے نے انٹرپول کو خط لکھا اور ان کی گرفتاری کے لئے مدد مانگی تھی لیکن انٹر پول نے کوئی جواب نہیں دیا۔
اس سے پہلے میمو گیٹ کیس کی گزشتہ سماعت میں عدالتی معاون احمر بلال صوفی نے حسین حقانی کو ملک واپس لانے کا ڈرافت پیش کیا تھا جس کے مطابق ریڈ وارنٹ بھی امریکہ سے انھیں واپس نہیں لا سکتا لیکن انھیں نیب کے ذریعہ ملک واپس لایا جاسکتا ہے۔
امریکہ میں مقیم حسین حقانی نے عدالت کے ریڈ وارنٹ جاری کیے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں ایک عدالتی تماشا لگا ہوا ہے۔ وہ سات برس پہلے سفارت خانہ چھوڑ چکے ہیں۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد قائم کئے گئے مقدمے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ ان کے خلاف یہاں کوئی قانونی کاروائی نہیں ہو سکتی اور وہ بڑے مزے سے امریکہ میں رہ رہے ہیں۔ انھوں نے عدالت کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ ’’ لگے رہو منا بھائی ‘‘۔
اب اپنے خلاف دائمی وارنٹ جاری کئے جانے کے ردعمل میں حسین حقانی کا کہنا ہے کہ ایسے دائمی وارنٹ پہلے بھی دو دفعہ جاری ہو چکے ہیں۔ ان کے سفارت خانے سے علیحدگی کے 7 سال گزرنے کے باوجود پاکستانی عدالتیں مختلف کاروائیاں کر رہی ہیں جن پر عمل درآمد کا امکان نہیں ہے۔
حسین حقانی کا کہنا ہے کہ کسی قانون دان سے پوچھا جائے کہ 5 سال سے زیادہ مدت گزرنے کے بعد درج ہونے والی ایف آئی آر کی کوئی قانونی حیثیت ہوتی ہے یا نہیں۔
کینیڈا میں مقیم بین لااقوامی قانون کے ماہر اٹارنی ایٹ لاء ڈاکٹر فضل جاوید کہتے ہیں کہ یہ کہہ دینا کہ سات سال پرانے کیس ہیں یا دس سال یا بیس سال پرانے کیس ہیں، کوئی معنی نہیں رکھتا۔
ڈاکٹر فضل جاوید نے کہا کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ خردبرد کے الزامات صحیح تھے تو تفتیش کبھی بھی ہو سکتی ہے، اور اگر پاکستان انٹرپول کو مطمئن کر دے تو پھر حسین حقانی امریکہ بدر ہو سکتے ہیں۔ اگر حسین حقانی نے امریکہ میں سیاسی پناہ لی ہے تو ان پر الزامات کی تحقیقات ریفوجی بورڈ کرے گا۔ یہ بورڈ اس بات کا جائزہ لے گا کہ ملک بدری سے کہیں ان کی جان کو خطرہ تو نہیں، اگر ان کی سیاسی پناہ کی درخواست منظور ہو چکی ہے تو پھر ان کی ملک بدری ممکن نہیں رہے گی، تاہم اس صورت میں انہیں اپنے خلاف خرد برد کے الزامات کا امریکہ میں سامنا اور انٹرپول میں اپنا دفاع کرنا پڑے گا۔ کامیابی کی صورت میں ان کی ملک بدری نہیں ہو گی۔
انھوں نے کہا کہ اگر گرین کارڈ سیاسی پناہ کی بنیاد پر حاصل کیا ہے تو انٹرپول کی گرفتاری کے باوجود انھیں ملک بدر نہیں کیا جاسکے گا، لیکن اگر گرین کارڈ کسی اور بنیاد پر ملا ہے تو انٹرپول کی گرفتاری کی صورت میں گرین کارڈ بھی منسوخ ہو سکتا ہے اور ملک بدری بھی ہو سکتی ہے۔