بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے پاکستان کے امیر طبقے سے ٹیکسوں کی وصولی اور ان کے لیے ہر قسم کی سبسڈی ختم کرنے پر زور دیا ہے۔
آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹالینا جورجیوا کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان سے دو اقدامات کے لیے کہہ رہا ہے جس میں پہلا امیر طبقے سے ٹیکسوں کی وصولی ہے جب کہ دوسرا سبسڈی صرف غریبوں کو دینا ہے۔
جرمنی کے شہر میونخ میں سیکیورٹی کانفرنس کے موقع پر ہفتے کو میڈیا سے گفتگو میں کرسٹینا جورجیوا کا کہنا تھا کہ ان کا دل پاکستان کی عوام کے ساتھ ہے، جن کو سیلاب کے سبب تباہی کا سامنا ہے، جس سے ملک کی ایک تہائی آبادی متاثر ہوئی ہے۔
ان کے مطابق آئی ایم ایف پاکستان سے وہ اقدامات کرنے کے لیے کہہ رہا ہے جس سے وہ ایک ملک کی طرح چل سکے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف صرف دو چیزوں پر زور دے رہا ہے جس میں پہلی چیز ٹیکس کے ذریعے ریونیو جمع کرنا ہے، کیوں کہ جو زیادہ پیسہ کما رہے ہیں، چاہے وہ نجی سیکٹر ہو یا سرکاری، ان کو ملک کی معیشت چلانے کے لیے حصہ ڈالنا چاہیے۔
ان کے مطابق دوسری چیز سبسڈی صرف اس طبقے کو دی جانی چاہیے جس کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف کی سربراہ نے زور دے کر کہا کہ امیر طبقے کے لیے سبسڈی نہیں ہونی چاہیے، صرف غریبوں کے فائدے کے لیے سبسڈی ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف اس حوالے سے سب واضح کر چکا ہے کہ وہ پاکستان کے غریب عوام کا تحفظ چاہتا ہے۔ اس لیے وہی طبقہ جو ٹیکس دے سکتا ہے ان پر مزید ٹیکسوں کا اطلاق ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیکسوں سے جمع ہونے والا پیسہ ان لوگوں پر خرچ ہونا چاہیے جن کو حکومت کی مدد کی ضرروت ہے۔
ان کے بقول جب ملک ایک مشکل صورتِ حال سے گزر رہا ہو تو امیر لوگوں کو کیوں ایسی سبسڈی سے مستفید کیا جائے؟ امیر لوگوں کے کاروبار کیوں ٹیکس ادا نہ کریں؟
گزشتہ ہفتے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قرض کی نئی قسط کے حصول کے لیے مذاکرات ختم ہوئے ہیں، البتہ دس روز تک مذاکرات میں حکام کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے اور مذاکرات بے نتیجہ ختم ہو گئے تھے۔
ان مذاکرات کے ختم ہونے کے بعد پاکستان کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے پریس کانفرنس کرکے کہا تھا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد 170 ارب روپے کے ٹیکس لگانے ہوں گے جب کہ پیٹرولم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی مزید اضافہ کرنا ہے۔
رواں ہفتے وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کیا جس میں مختلف شعبوں میں 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی۔
وفاقی وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ سیلز ٹیکس کی شرح 17 فی صد سے بڑھا کر 18 فی صد کرنے کی تجویز ہے جب کہ لگژری اشیا پر 25 فی صد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ موبائل فون، سگریٹ، فی کلو سیمنٹ سمیت کئی چیزوں پر ٹیکس عائد کیے گئے۔
چار روز قبل حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافے کا اعلان کیا۔ پیٹرول کی قیمت میں 22 روپے 20 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا جس کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 272 روپے فی لیٹر ہوگئی۔
ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 17 روپے 20 پیسے فی لیٹر اضافے سے اس کی نئی قیمت 280 روپے ہوگئی ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی ملک اشیاء خوردو نوش کی قیمتوں اور کرائیوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملک کے کئی شہروں میں آٹا 130 روپے کلو سے 150 روپے کلو مل رہا ہے، جب کہ مرغی کے گوشت کی قیمت 700 روپے فی کلو سے بڑھ چکی ہے۔ اسی طرح کئی شہروں میں دودھ کی قیمت 200 روپے لٹر تک جا پہنچی ہے۔
یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان کے روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں انتہائی کم ہو چکی ہے اور ایک ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 260 سے تجاوز کر چکا ہے۔