معروف بھارتی ہدایت کار سنجے لیلی بھنسالی کو دنیا بھر میں ان کی 'لارجر دین لائف' یعنی حقیقت سے بڑی فلموں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے نہ صرف نوے کی دہائی میں 'ہم دل دے چکے صنم' جیسی ہٹ فلم بنائی بلکہ اس کے بعد دیوداس، بلیک، رام لیلا، باجی راؤ مستانی اور پدماوت جیسی ہٹ فلمیں دیں۔
گزشتہ برس کی سب سے کامیاب فلم 'گنگو بائی کاٹھیاواڑی' بنانے کے بعد انہوں نے اپنے اگلے پروجیکٹ 'ہیرا منڈی' پر کام شروع کردیا تھا جس کا ٹیزر ریلیز کر دیا گیا ہے۔
اس ویب سیریز کی کہانی پاکستان کے شہر لاہور کی ہیرا منڈی کے گرد گھومتی ہے جو شاہی محلےکے نام سے بھی مشہور ہے۔
اس ویب سیریز کے ٹیزر سے قبل لکھا آتا ہے کہ 'سنجے لیلی بھنسالی آپ کو ایک ایسے جہاں میں لے جاتے ہیں جہاں طوائف ملکہ ہوتی تھیں!' جس کے بعد اس کا ٹیزر آتا ہے۔
اس ٹیزر میں معروف اداکاراؤں سوناکشی سنہا، منیشا کوائرالہ، ادیتی راؤ حیدری، شرمین سیگل، سنجیدہ شیخ اور ریچا چڈھا کو عروسی لباس اور زیوارات پہنے دکھایا گیا ہے جس سے لگتا ہے کہ اس ویب سیریز کی کہانی قیام پاکستان سے پہلے کی ہے۔
ویب سیریز کے ذریعے ہدایت کار سنجے لیلی بھنسالی نہ صرف او ٹی ٹی کی دنیا میں قدم رکھیں گے بلکہ وہ ہیرا منڈی میں رہنے والی طوائفوں کی زندگی پر بات کرنے کی کوشش کریں گے جسے غیر ملکی ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ یا ریڈ لائٹ ایریا کے نام سے جانتے ہیں۔
یہ علاقہ مغل دور میں رقص اور موسیقی کے لیے مشہور تھا لیکن بعد میں اسے بازارِ حسن کہا جانے لگا، جہاں برطانوی فوجیوں کے ساتھ ساتھ مقامی رئیس اور نواب بھی جاتے تھے۔
نیٹ فلکس سیریز 'ہیرا منڈی' پر صارفین کا ملا جلا ردِ عمل
سنجے لیلا بھنسالی نے کئی فلموں میں طوائفوں کی زندگی کو فلمایا ہے۔ 'دیوداس 'میں مادھوری ڈکشت ہوں یا 'گنگوبائی کاٹھیاواڑی' میں عالیہ بھٹ، سب ہی نے اس کردار کو نبھایا۔
تاہم ان کی نئی ویب سیریزکے ٹیزر کے منظرِ عام پر آنے کے بعدسوشل میڈیا پر ملا جلا ردِعمل سامنے آیا ہے۔
کسی کے خیال میں یہ پروجیکٹ بہترین ثابت ہوگا تو کوئی کہتا ہے کہ اس کے ذریعے وہ ایک اور حماقت کرنے والے ہیں۔
اداکارہ منیشا کوائرالہ نے 1996 میں ریلیز ہونے والی سنجے لیلی بھنسالی کی پہلی فلم 'خاموشی، دی میوزیکل' میں کام کیا تھا۔ اب 26 برس بعد ان کے ساتھ دوبارہ کام کر رہی ہیں۔
اس ویب سیریز کے بارے میں سوشل میڈیا پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ اس کے ذریعے ہدایت کار 'ہیرا منڈی 'کو اسکرین پر زندہ کریں گے۔
بھارتی فلم نقاد کومل ناتھا نے بھی اس کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ جس پروجیکٹ کے ذریعے سنجے لیلی بھنسالی او ٹی ٹی کی دنیا میں قدم رکھیں گے، اس کا انہیں بے صبری سے انتظار ہے۔
ایک صارف سحر شنواری نے بھی اس ویب سیریز کے پوسٹر کو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ وہ امید کرتی ہیں کہ لاہور شہر کے اس حصےپر یہ سیریز عمدہ انداز میں بات کرے گی۔
اداکارہ ہماقریشی نے بھی اس ویب سیریز کے ٹیزر ریلیز کے بعد سہیلی سوناکشی سنہا کی خوب تعریف کی۔
جہاں بھارتی لوگ اس ویب سیریز کو ایک اچھی کوشش قرار دے رہے ہیں وہیں پاکستانی شائقین اس سے زیادہ خوش نہیں۔
ڈرامہ نویس فائزہ افتخار سمجھتی ہیں کہ سنجے لیلا بھنسالی اس ویب سیریز کے ذریعے ایک بڑی حماقت کرنے والے ہیں۔
ان کے خیال میں اگر یہ ویب سیریز لاہور والی' ہیرا منڈی' پہ بنائی جا رہی ہے تو اس میں دکھائے جانے والی ساڑھی، غرارہ اور جھومر پنجاب کی ثقافت نہیں ہیں اور جو زمانہ فلم میں دکھایا جا رہا ہے اس وقت تک تویہ پنجاب میں آئے بھی نہیں تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تب فیشن گلوبل نہیں ہوتا تھا۔ ہر علاقے کا مخصوص رجحان ہی فیشن کہلاتا تھا۔
پاکستانی صحافی سندس رشید نے بھی اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھا کہ سنجے لیلی بھنسالی کی ویب سیریز کا پوسٹر دیکھ کر لگتا ہے جیسے کسی پاکستانی ڈیزائنر کا برائیڈل شوٹ ہو، جس میں سب ایک ہی جیسے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔
جیمز آف بالی وڈ نامی صارف نے بھی 'ہیرا منڈی' پر ویب سیریز بنانے پر تنقید کی۔
ان کے خیال میں 'گنگوبائی کاٹھیاواڑی' کے بعد طوائفوں کو ایک بار پھر پروموٹ کرنا اس بات کی جانب نشاندہی کرتا ہے کہ بالی وڈ کے پاس موضوعات ختم ہوگئے ہیں۔
ایک پاکستانی صارف نے ویب سیریز کا پوسٹر شیئر کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا واقعی اس وقت ایسے کپڑے پہنے جاتے تھے۔
ایک اور صارف نے لکھا کہ بھارت میں بیٹھ کر لاہور جیسے تاریخی شہر کا احساس فلم میں ڈالنا نا ممکن ہے۔
روی کرککرا نامی صارف کے بقول ہیرا منڈی میں رہنے والے شوق سے وہاں نہیں رہتے۔ ان کی زندگی کا مذاق اڑا کر نہ جانے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔