سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں رینجرز کے ہاتھوں ڈرامائی گرفتاری نے نہ صرف پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح کی توجہ بھی حاصل کر لی ہے۔
دنیا بھر کے میڈیا آؤٹ لیٹس خان کی گرفتاری کے ممکنہ نتائج کو اجاگر کر رہے ہیں۔ خان اور سول ملٹری قیادت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگیوں کی تصویر کشی کر رہے ہیں، اور پاکستان کے سیاسی منظر نامے اور دنیا کے دوسرے ملکوں اور اداروں کے ساتھ ، پاکستان کے تعلقات پر اس کے اثرات کا جائزہ بھی لے رہے ہیں۔
ٹائم نے گرفتاری کو خان اور ملک کی سویلین اور عسکری قیادت کے درمیان ممکنہ تصادم کے لیے محرک بتایا ۔
واشنگٹن میں واقع ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے کہا کہ یہ گرفتاری خان اور پاکستان میں طاقت کے نظام کے درمیان طویل عرصے سے جاری تصادم میں نمایاں اضافے کی نمائندگی کرتی ہے۔
کوگل مین نے خیال ظاہر کیا کہ سابق وزیر اعظم کے ساتھ ان کے تلخ تعلقات کے پیش نظر، امکان ہے کہ سویلین قیادت کی ممکنہ حمایت کے ساتھ، فوج نے خان کی گرفتاری میں براہ راست کردار ادا کیا ہو۔
نیویارک ٹائمز نے خان کی گرفتاری کو ان کے اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جاری تصادم کے ایک حصے کا نتیجہ قرار دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ فوج کے نقطہ نظر سے خان ایک وجودی خطرہ ہے۔
دریں اثنا، رائٹرز نے خان کی مقبولیت کو اجاگر کیا اور ان کا حوالہ، رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ’’ پاکستان کےمقبول ترین رہنما‘‘ کے طور پر دیا، اور ان کی گرفتاری کو سابق وزیر اعظم اور افواج پاکستان کے درمیان اقتدار کی کشمکش سے جوڑا۔
سی این این نے افراتفری کے ایک منظر کی تصویر کشی کرتے ہوئے بتایا کہ نیم فوجی فورس کے ارکان زبردستی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں داخل ہوئے اور خان کو اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ عدالت میں پیشی کے لیے اپنا بائیو میٹرک ڈیٹا جمع کروا رہے تھے۔ انہوں نے ان کو پکڑنے کے لیے ایک کھڑکی توڑ دی اور یوں واقعے کا ایک ڈرامائی منظر پیدا ہوا۔
دی گارڈین نے عمران خان کو ’’ پاکستان میں سب سے زیادہ تقسیم پیدا کرنے والے شخص کے طور پر پیش کیا اور بتایا کہ کس طرح خان اور فوج کے درمیان بگڑتے تعلقات میں پڑتی ہوئی دراڑین 2021 میں نمایاں ہونا شروع ہوئیں۔
رپورٹ میں خان کی جانب سے اس کی مزاحمت کا ذکر کیا گیا جسے وہ فوج کا کنٹرول اور حکومت کی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال سمجھتے تھے۔ دی گارڈین نے یہ بھی لکھا کہ خان کی پائیدار مقبولیت، جو ان کی گرفتاری کے بعد فوری طور پر ہونے والے مظاہروں سے عیاں ہوتی ہے، موجودہ حکومت کے لیے خطرہ ہے، جس کے نتیجے میں قبل از وقت عام انتخابات کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کی بین الاقوامی کوریج ، عمران خان اور سول ملٹری قیادت کے درمیان گہری ہوتی ہوئی تقسیم، ممکنہ بدامنی، عوامی غصے اور پاکستان کے دوطرفہ تعلقات پر اس کے اثرات کے حوالے سے تشویش کی عکاسی کرتی ہے۔
جیسے جیسے تبدیل ہوتی صورت حال سامنے آ رہی ہے، بین الاقوامی برادری اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے کہ یہ واقعات پاکستان کے سیاسی مستقبل اور چین، امریکہ اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ جیسے اہم شراکت داروں کے ساتھ اس کے تعلقات کو کس انداز میں ڈھالتے ہیں۔
(اس رپورٹ کے لیے مواد ایکسپریس ٹریبیون سے لیا گیا ہے)