بدھ کو ملک بھر میں پاکستانی قوم نے جشن آزادی منایا۔ ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی بچوں اور بڑوں نے جشن آزادی کے سلسلے میں گھروں اور گلیوں کو جھنڈیوں سے سجایا، پاکستانی پرچم لہرائے، آزادی کا اعلان کرتے بیجز اپنے سینوں پر سجائے اور ملی نغمے سنے اور سنائے۔
جوانوں نے وائس آف امریکہ سے قیام پاکستان کے بارے میں بات کی، لیکن آج کے جوان نہیں بلکہ اس وقت کے جوان جب بانی پاکستان قائد اعظم محد علی جناح نے قوم کو آزادی کی مبارک باد دی اور قوم کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ’’ چودہ اگست اس آزاد اور خود مختار ریاست پاکستان کا پہلا دن ہے، یہ مسلمان قوم کی قسمت کی تکمیل ہے جس نے پچھلے سالوں میں اپنا وطن حاصل کرنے کے لئے قربانیاں دی ہیں‘‘۔
کراچی میں رہنے والی عائشہ بائی مدراس والا جن کی عمر تقریباً نوے برس ہے انہوں نے تقسیم ہند اور اس وقت کے پاکستان اور آج کے پاکستان کے بارے میں وائس آف امریکہ کو بتایا، ’’ میں بمبئی میں تھی، وہاں اللہ اکبر کے نعرے گونجتے تھے، چاروں طرف مسجدیں تھیں، مسجدوں میں نعرے گونجتے تھے اور اتنے لوگ جمع ہو جاتے تھے کہ پورا محلہ بھر جاتا تھا، میں جولائی 1948ء کے مہینے میں پاکستان آئی تھی۔ میرے ابا زندہ تھے میں اپنے ابا کے ساتھ آئی تھی پاکستان اور میرے شوہر بھی ساتھ تھے۔ بتیاں نہیں تھیں ہم چراغ جلاتے تھے۔ اس وقت پاکستان اچھا تھا اب تو ہر جگہ دھوکا اور بے ایمانی ہے۔ اب تو پوچھو ہی مت کہ کیا حال ہے، کراچی میں سب کچھ سستا تھا اب تو اتنی مہنگائی ہو گئی ہے کہ انسان کچھ سوچ بھی سکتا ہے؟ یہاں کے لیڈر بھی اچھے تھے قائد اعظم تھے ، لیاقت علی خان تھے‘‘۔
ملک کے نامور محقق عقیل عباس جعفری نے اپنی تحقیق کی روشنی میں وائس آف امریکہ کو بتایا، ’’ قائد اعظم خود چودہ نکات سے پہلے ایک متحدہ ہندوستان کے حامی تھے لیکن نہرو رپورٹ سے انھیں اندازہ ہوا کہ یہ دو قومیں ساتھ نہیں چل سکتیں۔ یہ کہنا کہ پاکستان نہیں بننا چاہئے تھا اور اس کے بننے سے مسلمانوں کو نقصان پہنچا ہے، یہ چھیاسٹھ سالوں کے بعد کہنا ایک الگ بات ہے اس وقت جو صورت حال تھی اس کے پیش نظر تو میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان ایک نا گزیر حقیقت تھی اور پاکستان بننا چاہئے تھا۔ بد قسمتی ہمارے یہاں یہ رہی کہ جمہوریت ہمارے ہاں اس طرح نہیں چل سکی جس طرح چلنی چاہئے تھی۔‘‘
جن بچوں نے پاکستان بنتے دیکھا ان میں سے ایک کراچی میں رہنے والے رُستم ہیں جن کی عمر تقریبا پچھتر سال ہے انھوں نے پہلے کے پاکستان اور آج کے پاکستان کے بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’اس زمانے میں آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی ماحول ایسا تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بھائی بندی اور دوستی کے ساتھ رہتے تھے نہ کوئی گلہ نا جھگڑا۔ امن و امان کی صورتحال اچھی تھی اور تقسیم ِہند کے وقت ڈالر اور روپئے کی قدر برابر تھی ایک ڈالر ایک روپے کے برابر تھا۔ پھر کچھ ہی عرصے میں ڈالر چار روپے پچانوے پیسے، پھر 11 اور پھر 17روپے کا ہو گیا اور آج ڈالر103 روپے کا ہے، تو آپ دیکھیں کہ ان ساٹھ ستر سالوں میں ہم اقتصادی طور پر کہاں سے کہاں آ گئے ہیں‘‘۔
زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف عمر کے لوگوں سے بات کرنے سے بظاہر یہ سمجھ آتا ہے کہ جہاں بہت سے لوگوں کی امیدیں بوڑھی ہو جاتی ہیں وہیں بے شمار لوگوں کی امیدیں جواں ہوتی ہیں اور سبھی پاکستانی اس وقت ایک بہتر، ترقی یافتہ اور پُر امن پاکستان کی دعا مانگ رہے ہیں۔
جوانوں نے وائس آف امریکہ سے قیام پاکستان کے بارے میں بات کی، لیکن آج کے جوان نہیں بلکہ اس وقت کے جوان جب بانی پاکستان قائد اعظم محد علی جناح نے قوم کو آزادی کی مبارک باد دی اور قوم کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ’’ چودہ اگست اس آزاد اور خود مختار ریاست پاکستان کا پہلا دن ہے، یہ مسلمان قوم کی قسمت کی تکمیل ہے جس نے پچھلے سالوں میں اپنا وطن حاصل کرنے کے لئے قربانیاں دی ہیں‘‘۔
کراچی میں رہنے والی عائشہ بائی مدراس والا جن کی عمر تقریباً نوے برس ہے انہوں نے تقسیم ہند اور اس وقت کے پاکستان اور آج کے پاکستان کے بارے میں وائس آف امریکہ کو بتایا، ’’ میں بمبئی میں تھی، وہاں اللہ اکبر کے نعرے گونجتے تھے، چاروں طرف مسجدیں تھیں، مسجدوں میں نعرے گونجتے تھے اور اتنے لوگ جمع ہو جاتے تھے کہ پورا محلہ بھر جاتا تھا، میں جولائی 1948ء کے مہینے میں پاکستان آئی تھی۔ میرے ابا زندہ تھے میں اپنے ابا کے ساتھ آئی تھی پاکستان اور میرے شوہر بھی ساتھ تھے۔ بتیاں نہیں تھیں ہم چراغ جلاتے تھے۔ اس وقت پاکستان اچھا تھا اب تو ہر جگہ دھوکا اور بے ایمانی ہے۔ اب تو پوچھو ہی مت کہ کیا حال ہے، کراچی میں سب کچھ سستا تھا اب تو اتنی مہنگائی ہو گئی ہے کہ انسان کچھ سوچ بھی سکتا ہے؟ یہاں کے لیڈر بھی اچھے تھے قائد اعظم تھے ، لیاقت علی خان تھے‘‘۔
ملک کے نامور محقق عقیل عباس جعفری نے اپنی تحقیق کی روشنی میں وائس آف امریکہ کو بتایا، ’’ قائد اعظم خود چودہ نکات سے پہلے ایک متحدہ ہندوستان کے حامی تھے لیکن نہرو رپورٹ سے انھیں اندازہ ہوا کہ یہ دو قومیں ساتھ نہیں چل سکتیں۔ یہ کہنا کہ پاکستان نہیں بننا چاہئے تھا اور اس کے بننے سے مسلمانوں کو نقصان پہنچا ہے، یہ چھیاسٹھ سالوں کے بعد کہنا ایک الگ بات ہے اس وقت جو صورت حال تھی اس کے پیش نظر تو میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان ایک نا گزیر حقیقت تھی اور پاکستان بننا چاہئے تھا۔ بد قسمتی ہمارے یہاں یہ رہی کہ جمہوریت ہمارے ہاں اس طرح نہیں چل سکی جس طرح چلنی چاہئے تھی۔‘‘
جن بچوں نے پاکستان بنتے دیکھا ان میں سے ایک کراچی میں رہنے والے رُستم ہیں جن کی عمر تقریبا پچھتر سال ہے انھوں نے پہلے کے پاکستان اور آج کے پاکستان کے بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’اس زمانے میں آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی ماحول ایسا تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بھائی بندی اور دوستی کے ساتھ رہتے تھے نہ کوئی گلہ نا جھگڑا۔ امن و امان کی صورتحال اچھی تھی اور تقسیم ِہند کے وقت ڈالر اور روپئے کی قدر برابر تھی ایک ڈالر ایک روپے کے برابر تھا۔ پھر کچھ ہی عرصے میں ڈالر چار روپے پچانوے پیسے، پھر 11 اور پھر 17روپے کا ہو گیا اور آج ڈالر103 روپے کا ہے، تو آپ دیکھیں کہ ان ساٹھ ستر سالوں میں ہم اقتصادی طور پر کہاں سے کہاں آ گئے ہیں‘‘۔
زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف عمر کے لوگوں سے بات کرنے سے بظاہر یہ سمجھ آتا ہے کہ جہاں بہت سے لوگوں کی امیدیں بوڑھی ہو جاتی ہیں وہیں بے شمار لوگوں کی امیدیں جواں ہوتی ہیں اور سبھی پاکستانی اس وقت ایک بہتر، ترقی یافتہ اور پُر امن پاکستان کی دعا مانگ رہے ہیں۔